1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی قوانين کے نفاذ تک امن ممکن نہيں، مولانا سميع الحق

عاصم سليم6 فروری 2014

تحريک طالبان پاکستان کے مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ جب تک ملک ميں اسلامی قوانين نافذ نہيں کيے جاتے اور پڑوسی ملک افغانستان سے تمام غير ملکی فوجيوں کے انخلاء کا عمل مکمل نہيں ہو جاتا، پاکستان ميں کسی صورت امن ممکن نہيں ہے۔

https://p.dw.com/p/1B3Og
تصویر: picture-alliance/Photoshot

پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ليے تحريک طالبان پاکستان کی جانب سے نامزد کردہ تين رکنی کميٹی کے سربراہ مولانا سميع الحق نے خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمسائے ملک افغانستان ميں امريکی فوجی تعينات ہيں، خطے ميں امن قائم نہيں ہو سکتا۔

تحريک طالبان کی مذاکراتی ٹيم کے ايک اور رکن مولانا عبدالعزيز نے مولانا سميع الحق کی حمايت کی اور مزيد کہا کہ طالبان کی جانب سے کيے جانے والے اسلامی يا شرعی قوانين کے نفاذ کے مطالبات کے بارے ميں کسی قسم کی بحث کی گنجائش نہيں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’شرعی قوانين کے بغير، طالبان اس مذاکراتی عمل کو ايک فيصد بھی تسليم نہيں کريں گے۔‘‘ مولانا عبدالعزيز کے بقول اگر طالبان کے چند دھڑے مذاکراتی عمل کو تسليم کر بھی ليں، تو متعدد ديگر گروپس ايسا نہيں کريں گے۔

تحريک طالبان کی مذاکراتی ٹيم کے ايک رکن مولانا عبدالعزيز
تحريک طالبان کی مذاکراتی ٹيم کے ايک رکن مولانا عبدالعزيزتصویر: picture alliance/AP Photo

پاکستان ميں طالبان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہيں۔ امن کے قيام کے ليے ماضی ميں ہونے والی تمام کارروائیوں کی عمر زيادہ نہ رہی۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان کے مشير برائے خارجہ امور سرتاج عزيز نے کہا، ’’ان کا اصل ايجنڈا شرعی قوانين کا نفاذ ہے۔ ميں نہيں سمجھتا کہ حکومت يہ تسليم کرے گی تاہم انہيں اس حقيقت کو تسليم کر لينا چاہيے کہ جنگ مسئلے کا حل نہيں ہے۔‘‘

اگرچہ اس سلسلے ميں حتمی صورت حال واضح نہیں تاہم امکان ہے کہ پاکستانی حکومت اور تحريک طالبان پاکستان کے مذاکرات کار جمعرات يا جمعے يعنی چھ يا سات فروری کے روز ملاقات کر سکتے ہیں۔ قبل ازيں فريقين کے مابين ابتدائی ملاقات منگل کو ہونا تھی تاہم چند نکات کے واضح نہ ہونے کے سبب حکومتی مذاکراتی کميٹی نے طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کو مؤخر کر دیا تھا۔

پاکستان ميں نئے سال کے آغاز پر پُر تشدد کارروائيوں ميں واضح اضافہ ديکھا گيا ہے اور اب تک اِن واقعات ميں ايک سو دس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ کئی تجزيہ کاروں کا اندازہ تھا کہ فوج شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کرے گی تاہم پاکستانی وزير اعظم نواز شريف نے گزشتہ ہفتے اپنے اعلان کے ذريعے امن مذاکرات کو ايک اور موقع فراہم کيا۔