1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری کارروائی میں کامیابیاں ملی ہیں، جان کیری

عاطف بلوچ4 دسمبر 2014

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے عراق میں فعال اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایرانی فضائی کارروائی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے ’مثبت‘ ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dz0K
تصویر: Reuters/Eric Vidal

امریکی وزیر خارجہ نے عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف جاری امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فضائی کارروائیوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وجہ سے جنگجوؤں کی پیشقدمی روکنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم شامی حکومت کے مطابق یہ فضائی حملے زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔

بدھ کے دن برسلز میں منعقد ہوئے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عالمی اتحاد کے ایک اجلاس کے دوران کیری نے البتہ یہ واضح بھی کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر شکست دینے میں کئی برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جان کیری نے اگرچہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی کہ ایرانی فضائیہ بھی عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر تہران حکومت کچھ ایسا کر رہی ہے تو مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے یہ کارروائی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

Brüssel NATO Hauptquartier Anti IS Allianz
بدھ کو برسلز میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عالمی اتحاد کا ایک اجلاس منعقد کیا گیاتصویر: Reuters/Eric Vidal

نیٹو کے صدر دفاتر میں باسٹھ ممالک پر مشتمل اس اتحاد کے سفارتکاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کیری کا کہنا تھا، ’’اگر کچھ مخصوص مقامات پر ایران اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور وہ مؤثر ثابت ہو رہی ہے تو وہ مثبت ہی رہے گی۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے امریکا اور ایران کے مابین کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا۔ یہ امر اہم ہے کہ ان باسٹھ ممالک میں سے سارے ہی شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف براہ راست فضائی کارروائی میں شریک نہیں ہیں۔

عراق اور شام کے متعدد علاقوں میں فعال اسلامک اسٹیٹ کے سنی انتہا پسندوں کے خلاف یہ عالمی اتحاد گزشتہ چار ماہ کے دوران ایک ہزار سے زیادہ فضائی حملے کر چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انہی حملوں کی وجہ سے ان جہادیوں کی پیشقدمی رک گئی ہے اور عراق کے کچھ علاقوں پر کرد فورسز نے اپنا قبضہ بحال کر لیا ہے۔

جان کیری کے بقول، ’’اس عسکری مہم میں ہماری کارکردگی کے مؤثر ہونے کا اندازہ کئی برسوں میں لگایا جا سکے گا۔ جب تک یہ مہم مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، تمام اتحادی ممالک اس میں شریک رہیں گے۔‘‘ اتحادی ممالک کے نمائندوں کی اس میٹنگ کے اختتام پر جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جہادیوں کی فنڈنگ اور ان کی مدد کے لیے غیرملکیوں کو وہاں پہنچنے سے روکنے کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔ عسکری آپریشن میں مدد کے علاوہ اتحادی ممالک نے اس عہد کا اظہار بھی کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کو یقینی بنانے کے علاوہ اس جنگجو گروہ کے اصل نظریات کو بھی بے نقاب کیا جائے گا تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو کہ یہ کتنا سفاک گروہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباﹰ تیس ہزار ہے، جو اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ایسے افراد کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، جنہیں وہ نظریاتی حوالے سے اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ شمالی عراق اور شام میں نام نہاد خلافت قائم کرنے والے اس شدت پسند گروہ نے اپنی خونریز کارروائیوں میں قتل، آبروریزی اور اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے سے بھی اجتناب نہیں کیا۔

دوسری طرف شامی حکومت کا موقف ہے کہ ان شدت پسندوں سے نمٹنے کے لیے صرف فضائی کارروائی ہی کافی نہیں ہو گی بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایسی بری فوج کی ضرورت ہے، جو جغرافیائی لحاظ سے ان علاقوں کی پیچیدگیوں سے باخبر ہو اور فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے قابل ہو۔ دمشق حکومت کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادی ممالک اب تک اس تناظر میں مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔