1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل برسوں سے ایران پر حملے کی تیاریوں میں مصروف

13 مارچ 2012

ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ تل ابیب حکومت کئی برسوں سے ایران پر حملے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے امریکا سے ’بنکر بسٹر‘ بم بھی خریدے ہیں۔

https://p.dw.com/p/14Jkl
تصویر: picture alliance/dpa

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی ایران پر حملے کی دھمکیاں محض کھوکھلی نہیں تھیں۔

اسرائیل، امریکا اور مغربی ملکوں کا خیال ہے کہ ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی جانب اہم پیشرفت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے اگرچہ اپنی رپورٹوں میں ایرانی جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے معائنہ کاروں کو ابھی تک اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اسرائیلی دفاعی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی اور تیاریاں کئی برسوں سے جاری ہیں۔ اس حملے میں اسرائیلی فضائیہ کا کلیدی کردار ہو گا۔

Militärübung auf Taiwan
ایران پر کسی بھی حملے میں اسرائیلی فضائیہ کا کلیدی کردار ہو گاتصویر: AP

ایران کے خلاف کسی ممکنہ مشن میں ایک سو لڑاکا طیارے حصہ لیں گے۔ اسرائیلی فضائی بیڑے میں سب سے مضبوط سمجھے جانے والے F-15i طیاروں کی تعداد چوبیس ہے۔ امریکی ساختہ یہ جہاز بھاری بم لے جا سکتا ہے جن میں پانچ ہزار پاؤنڈ وزنی لیزر گائیڈڈ GBU-28 بم بھی ہیں جو امریکا سے خریدے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس چار اسکواڈرن یا ایک سو کے قریب F-16i لڑاکا طیارے ہیں جو زمینی اہداف کو سرعت سے نشانہ بنانے کے علاوہ بھاری بمبار طیاروں کی فضائی حفاظت بھی کر سکتے ہیں۔ اسرائیل نے طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے بغیر پائلٹ ڈرون بھی بنا رکھے ہیں جو جاسوسی، مواصلات اور دیگر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ نے 1981ء میں عراق کے اوسیراک جوہری ری ایکٹر اور 2007ء میں شام کے زیر تکمیل پلانٹ کو حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا مگر ایرانی تنصیبات پر حملہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کرنے کے لیے 2008ء میں یونان میں طویل فاصلے تک پروازوں کی فضائی مشقیں کی تھیں جس میں ایک سو طیاروں نے حصہ لیا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے حال ہی میں یونان اور اٹلی کے ساتھ اس طرح کی مزید مشقیں کی ہیں۔

ایران پر فضائی حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کے پاس تین راستے ہیں۔ سب سے مختصر اور آسان راستہ ہمسایہ ملک اردن کے اوپر سے گزر کر عراق کے راستے ایران تک پہنچنا ہے۔ دوسرا جنوب میں پرواز کرتے ہوئے سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزر کر ایران پر وار کرنا ہے جبکہ تیسرا راستہ ترکی سے ہو کر گزرتا ہے۔ اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گزرنے کی صورت میں عرب دنیا میں ان ملکوں کے خلاف سخت تنقید کی جائے گی۔ ترکی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات حال ہی میں خراب ہو چکے ہیں اور وہاں کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ اگر اسرائیل نے بلا اجازت ترکی کی فضائی حدود استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کے طیاروں کو مار گرایا جائے گا۔

Israelischer Luftangriff in Gaza
اسرائیل نے راکٹوں سے بچنے کا دفاعی نظام Iron Dome بھی فعال کر دیا ہےتصویر: AP

اسرائیل کے مقابلے میں ایرانی فضائیہ کمزور ہے اور اس کا انحصار سابق سوویت ساختہ MIG لڑاکا طیاروں اور 1970 ء کی دہائی کے بنے ہوئے امریکی F14A Tomcats پر ہے۔ ایران کے پاس روسی ساختہ طیارہ شکن S-300 میزائلوں کے علاوہ چین سے حاصل کردہ ریڈار نظام بھی موجود ہے۔

اسرائیل کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایران کی زمین دوز جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ہو گا اور اسی لیے اس کی خواہش ہے کہ امریکا اس لڑائی میں حصہ لے۔ امریکی بنکر بسٹر بم کہیں گہرائی میں جا کر تنصیبات کو تباہ کر سکتے ہیں۔ ایران کے یورینیم افزودہ کرنے والے پلانٹ کے بارے میں خیال ہے کہ وہ تہران کے جنوب میں ایک پہاڑ میں تین سو فٹ گہرائی میں بنا ہوا ہے۔

ایران نے اسرائیلی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کے طور پر یہودی ریاست پر شہاب میزائل داغنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ ایران لبنان میں عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اور غزہ پٹی میں حماس کو بھی اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ ان دونوں گروپوں کے پاس ہزاروں راکٹ ہیں جو اسرائیلی سرزمین تک پہنچ سکتے ہیں۔

Iran Mittelstreckenrakete Shahab-3
ایران نے کسی حملے کی صورت میں اسرائیل پر اپنے دور مار شہاب میزائل داغنے کی دھمکی دی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ایرانی یا حزب اللہ کے راکٹوں سے بچنے کے لیے اسرائیل نے اپنے میزائل شکن Arrow نظام کو مزید بہتر اور جدید بنایا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے راکٹوں سے بچنے کا دفاعی نظام Iron Dome بھی فعال کر دیا ہے جس نے حالیہ دنوں میں غزہ سے داغے جانے والے 90 فیصد راکٹوں کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کر دیا۔

بہت سے ماہرین کے خیال میں کسی حملے کی صورت میں ایران خلیج میں امریکی مفادات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر ایران نے محسوس کیا کہ ریاض حکومت نے اسرائیل کو حملہ کرنے میں مدد فراہم کی ہے تو وہ سعودی عرب پر بھی وار کر سکتا ہے۔

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان