اسرائیل اور حماس کے درمیان سیزفائرمیں توسیع کے لیے سخت مذاکرات
13 اگست 2014فریقین کے درمیان منگل کی شام تک جاری رہنے والے مذاکرات کے حوالے سے فی الحال یہ بات سامنے نہیں آئی ہے کہ آیا اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں۔ مذاکرات میں شدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان موجودہ فائربندی معاہدہ کل بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ختم ہو جائے گا اور دونوں فریق اس سلسلے میں توسیع کے لیے اپنی اپنے مطالبات اور خدشات کے ساتھ قاہرہ میں مصری ثالثی میں بات چیت میں مصروف ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ جمعے کو ایسے ہی ایک معاہدے کے لیے جاری بات چیت بے نتیجہ رہی تھی، جس کے بعد غزہ سے حماس نے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ برسانے جب کہ اسرائیل نے غزہ میں متعدد مقامات کو نشانہ بنانے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ کی آٹھ تاریخ سے جاری اس مسلح تنازعے میں 19سو فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ہلاک شدگان میں زیادہ تر عام شہری شامل ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کو بھی اس سلسلے میں 67 افراد کی ہلاکت کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، جس میں تین عام شہری شامل ہیں۔
واضح رہے کہ حماس کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ غزہ کی معیشت کی بحالی کے لیے اس کے خلاف عائد اسرائیلی پابندیاں اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے، جب کہ اسرائیلی موقف ہے کہ اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ داغنے والی عسکری تنظیم حماس یہ ناکہ بندی ختم کروا کر اسمگلنگ کے ذریعے بہت سا اسلحہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ مصر اس حوالے سے فریقین پر تنازعے کے خاتمے اور مکمل سیز فائر کے لیے سخت دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔
حماس کے مذاکراتی وفد کے سربراہ موسیٰ عبد مزروک نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا ہے، ’یہ بات چیت پیچیدہ مگر انتہائی سنجیدہ ہے۔ اس (حماس کے) وفد کو عوام کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔‘
خیال رہے کہ بین الاقوامی برادری حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہے جب کہ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس اس کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ تنازعے کی وجہ سے حماس کی مقبولیت کا گراف فلسطینی عوام میں بلند ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حماس غزہ کی ناکہ بندی ختم کرائے بغیر کسی سیز فائر معاہدے کو اپنا کر اپنی اس مقبولیت کو کم نہیں کرنا چاہتی۔