1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسانج کی تحویل: برطانیہ اور ایکواڈور میں ’ٹھَن گئی‘

16 اگست 2012

ایکواڈور نے کہا ہے کہ برطانیہ نے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو حوالے نہ کیے جانے پر لندن میں قائم کیٹو کے سفارت خانے پر چڑھائی کی دھمکی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/15qO4
تصویر: Reuters

ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینو نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران برطانوی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ لندن حکام نے کیٹو کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس کو سفارت خانے میں گھس کر اسانج کو گرفتار کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔

پاٹینو نے کہا: ’’ایکواڈور جولیان اسانج کو ان کے حوالے نہیں کرتا تو وہ ہمارے سفارت خانے پر چڑھائی کر سکتے ہیں۔‘‘

وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا: ’’برطانوی حکومت نے جو رویہ اپنایا ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے، سیاسی لحاظ سے بھی اور قانونی تناظر میں بھی۔‘‘

انہوں نے خبردار کیا کہ بلااجازت سفارت خانے میں داخل ہونے سے سفارتی تعلقات پر ویانا کنونشن کے قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔

Ecuadorianische Botschaft in London
لندن میں ایکواڈور کا سفارت خانہتصویر: Reuters

پاٹینو نے بتایا کہ ایکواڈور حکومت نے سیاسی پناہ کے لیے جولیان اسانج کی درخواست پر فیصلہ کر لیا ہے اور اس کا اعلان جمعرات کی صبح سات بجے (عالمی وقت کے مطابق دِن بارہ بجے) کیا جائے گا۔

اُدھر برطانوی حکام نے کہا ہے کہ وہ جولیان اسانج کو سویڈن کے حوالے کرنے کے لیے ’پرعزم‘ ہیں تاکہ وہاں وہ جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا کریں۔

برطانوی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے: ’’اسانج کو سویڈن کے حوالے کرنا برطانیہ کی قانونی ذمہ داری ہے تاکہ وہاں جنسی زیادتی کے الزامات پر ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے اور ہم اپنی یہ ذمہ داری پورے کرنے کے ارادے پر اٹل ہیں۔‘‘

قبل ازیں منگل کو ایکواڈور کے صدر رافائل کورئیا نے اسانج کو سیاسی پناہ دینے کے بارے میں برطانوی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ مسترد کر دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افواہ غلط ہے اور اس سلسلے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے یہ وضاحت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کی تھی۔ اکتالیس سالہ جولیان اسانج برطانیہ بدری سے بچنے کے لیے ایکواڈور میں پناہ چاہتے ہیں۔ انہیں سویڈن کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں انہیں جنسی حملے کے الزامات کا سامنا ہے۔

وکی لیکس کے بانی کو خدشہ ہے کہ سویڈن سے انہیں امریکا کے حوالے کیا جا سکتا ہے جہاں ان پر امریکی خفیہ دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے پر جاسوسی کا مقدمہ چل سکتا ہے۔

(ng/ah (AFP, AP