اردن سے ملحق شام کی سرحد بند، نئے پناہ گزینوں کی تعداد صفر کے قریب
25 ستمبر 2012صدر اسد کی فوج نے سرحد کے قریب فرار کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ دوسری جانب اردن حکومت بھی پناہ گزینوں کو بوجھ سمجھنے لگی ہے۔ دو روز پہلے شام سے ملحق سرحد پر اردن کے سرحدی محافظوں اور کئی مسلح افراد کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حملہ آور کون تھے۔ لیکن اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اینڈریو ہارپر کہتے ہیں کہ شام نے سرحد کی نگرانی بڑھاتے ہوئے فرار کے راستے بند کر دیے ہیں۔’’حالیہ دنوں میں پناہ گزینوں کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ اب لوگ شام نہیں چھوڑنا چاہتے بلکہ سرحد کو سیل کر دیا گیا ہے۔ ہر رات فائرنگ ہوتی ہے۔‘‘
گزشتہ تین ہفتوں میں شامی فوج جنوبی علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحد عبور کرتے ہوئے انہیں زمین اور ہوا دونوں سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اردن کی سرحد کے اندر بھی لوگ خوفزدہ ہیں۔ شام کی سرحد کے قریب رہنے والے ایک اردنی باشندے کا کہنا تھا، ’’لوگ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں اور ہر شام ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ نجانے کب کیا ہو جائے۔‘‘
اردن کے وزیر خارجہ ناصر جودہ کا کہنا ہے کہ ان کے ملک پر شامی مہاجرین کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق اردن میں مہاجرین کے صرف ایک کیمپ میں تیس ہزار کے قریب پناہ گزینوں کو رکھا گیا ہے۔ ناصر جودہ کہتے ہیں، ’’ یہ ہمارے لیے بوجھ ہے، لیکن ہمارے پاس جو تھوڑا کچھ ہے، پناہ گزینوں کو اس میں شریک کیا جائے گا۔ اس میں پانی، اسکول اور طبی دیکھ بھال شامل ہے۔‘‘
اردن کے وزیر خارجہ کے مطابق پناہ گزینوں میں شام کے دو ہزار کے قریب فوجی بھی شامل ہیں۔ شامی فوج کے تمام اراکین کو ایک خصوصی کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ اردن حکومت کے مطابق اعتماد اچھی چیز ہے لیکن ان پر نظر رکھنا اس سے بہتر ہے۔ وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ ان کے ملک میں آنے والے تمام افراد پناہ کے متلاشی نہیں ہیں بلکہ کئی اپنے اہداف لے کر آئے ہیں، جن میں پناہ گزینوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا اور ہمارے ملک کو کمزور کرنا بھی شامل ہے۔ شامی وزیر خارجہ چاہتے ہیں کہ شام کا مسئلہ جلد از جلد حل ہو تاکہ پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا سکے۔
Leidholdt, U/ia, Lichtenberg, A/aba