1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ادب کا نوبل انعام مودیانو کے لیے

امجد علی9 اکتوبر 2014

فرانس کے ممتاز ادیب پاتریک مودیانو کو، جو عمر بھر اپنے ادبی شاہکاروں میں فرانس پر نازی سوشلسٹوں کے قبضے اور اُس کے اثرات کو بیان کرتے رہے ہیں، 2014ء کا نوبل انعام برائے ادب دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DScc
2014ء کا نوبل انعام برائے ادب پانے والے فرانسیسی ادیب پارتریک مودیانو آج کل پیرس میں رہتے ہیں
2014ء کا نوبل انعام برائے ادب پانے والے فرانسیسی ادیب پارتریک مودیانو آج کل پیرس میں رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Le Parisien Frédéric Dugit

مودیانو یہ انعام حاصل کرنے والے پندرہویں فرانسیسی ادیب ہیں۔ انہیں یہ انعام دینے کا اعلان جمعرات نو اکتوبر کو اسٹاک ہوم میں سویڈش اکیڈمی کی جانب سے کیا گیا۔ اکیڈمی کا کہنا تھا کہ مودیانو کو آٹھ ملین کرونر (ایک اعشاریہ ایک ملین ڈالر) کا یہ انعام اُن کے ’واقعات کو یاد رکھنے کے اُس فن کے لیے دیا جا رہا ہے، جس کی مدد سے اُنہوں نے انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے انتہائی ناقابلِ تصور حالات کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ نازی سوشلسٹ قبضے کے دوران لوگوں نے وقت کیسے گزارا‘۔

مودیانو، جن کی عمر اس وقت 69 برس ہے اور جن کے ناول ’مِسِّنگ پرسن‘ یعنی ’لاپتہ شخص‘ کو 1978ء میں ’پری گوں کُور‘ کے اعلیٰ ادبی اعزاز سے نوازا گیا تھا، جولائی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے دو مہینے بعد پیرس کی ایک مغربی مضافاتی بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد آلبیئر مودیانو اٹلی سے نقل مکانی کر کے فرانس میں آباد ہو جانے والے ایک یہودی تھے۔

مودیانو نے اپنی تخلیقات میں فرانس پر نازی سوشلسٹوں کے قبضے، اس قبضے کے دوران شناخت سے محرومی کے مسئلے اور یہودیوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو موضوع بنایا ہے
مودیانو نے اپنی تخلیقات میں فرانس پر نازی سوشلسٹوں کے قبضے، اس قبضے کے دوران شناخت سے محرومی کے مسئلے اور یہودیوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو موضوع بنایا ہےتصویر: Daniel Roland/AFP/Getty Images

مودیانو کے ناولوں میں فرانس پر نازی سوشلسٹوں کے قبضے، اس قبضے کے دوران شناخت سے محرومی کے مسئلے اور یہودیوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

ادبی دنیا میں مودیانو کو متعارف کروانے کا سہرا مودیانو کی والدہ کے ایک دوست ریموں کینو کے سر ہے، جو خود بھی ایک معروف ادیب تھے اور جن سے مودیانو جیومیٹری کی ٹیوشن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ادب سے دلچسپی اتنی بڑھی کہ مودیانو نے اپنی یونیورسٹی تعلیم کو بھی خیر باد کہہ دیا اور پورا وقت اپنی ادبی تخلیقات کو دینا شروع کر دیا۔

اب تک فرانسیسی زبان میں مودیانو کے چالیس سے زیادہ شاہکار شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی ایک انگریزی میں بھی ترجمہ ہوئے ہیں، مثلاً ’رِنگ آف روڈز، آ ناول‘، آ ٹریس آف میلائس‘ اور ’ہنی مون‘۔

مودیانو کے ہاتھ میں ان کا ناول ’مِسِّنگ پرسن‘ یعنی ’لاپتہ شخص‘ ہے، جس کے لیے انہیں 1978ء میں ’پری گوں کُور‘ کے اعلیٰ ادبی اعزاز سے نوازا گیا تھا
مودیانو کے ہاتھ میں ان کا ناول ’مِسِّنگ پرسن‘ یعنی ’لاپتہ شخص‘ ہے، جس کے لیے انہیں 1978ء میں ’پری گوں کُور‘ کے اعلیٰ ادبی اعزاز سے نوازا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

پاتریک مودیانو نے بچوں کے لیے بھی کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے ہیں جب کہ 1974ء میں اُنہوں نے ممتاز فلم ہدایتکار لوئس مال کے ساتھ مل کر ایک فلم ’لاکومبے، لُوسیاں‘ بھی بنائی تھی۔ سن 2000ء میں انہوں نے کن فلمی میلے کی جیوری کے ایک رکن کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔

سویڈش اکیڈمی کے مستقل سیکرٹری پیٹر انگلنڈ نے کہا کہ زمانہ، یادیں اور شناخت ایسے موضوعات ہیں، جو مودیانو کی تحریروں میں بار بار نظر آتے ہیں۔ سویڈش نشریاتی ادارے ایس وی ٹی سے باتیں کرتے ہوئے انگلنڈ نے کہا:’’اُن کی کتابیں ایک دوسرے سے باتیں کرتی ہیں، وہ ایک دوسرے کی باز گشت ہیں۔ یہ چیز اُن کی تخلیق کو ایک طرح سے منفرد بناتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے ہمارے دور کے مارسل پروسٹ ہیں۔‘‘

پاتریک مودیانو آج کل فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں رہتے ہیں اور بہت کم انٹرویوز دیتے ہیں۔ 2012ء میں اُنہیں آسٹریا کے یورپی ادبی اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ وہ اپنا نوبل انعام برائے ادب دَس دسمبر کو منعقدہ ایک تقریب میں وصول کریں گے۔ یہ تقریب ہر سال دَس دسمبر کو اس لیے منعقد کی جاتی ہے کہ 1896ء میں اِسی روز اِس انعام کی بانی شخصیت الفریڈ نوبل کا انتقال ہوا تھا۔

گزشتہ سال ادب کا نوبل انعام کینیڈا کی ادیبہ ایلس منرو کے حصے میں آیا تھا۔ تب منرو کی عمر 82 برس تھی اور وہ اپنی طویل العمری اور صحت کے مسائل کی وجہ سے یہ انعام وصول کرنے خود سویڈن نہیں آ سکی تھیں۔