1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ان ہاؤس چینج حلیم کی دیگ نہیں

23 دسمبر 2019

پاکستانی وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے اداروں کے درميان تصادم کی باتوں کو مسترد کيا۔ اعوان نے کہا کہ جب تک ادارے مضبوط اور خود مختار نہيں ہوں، ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی۔

https://p.dw.com/p/3VGTE
Kombobild Oberster Gerichtshof in Islamabad und Qamar Javed Bajwa
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem/SS Mirza

پاکستانی وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے پير کو منعقدہ ايک پريس کانفرنس ميں اداروں کے درميان تصادم کی باتوں کو مسترد کيا۔ اعوان نے کہا کہ جب تک ادارے مضبوط اور خود مختار نہيں ہوں، ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی۔

پاکستانی وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے پیر کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عناصر آرٹیکل چھياسٹھ کے ساتھ اداروں کے تصادم کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اندرون خانہ تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ان ہاؤس چینج کوئی حلیم کی دیگ نہیں ہے۔‘‘

معاون خصوصی نے واضح کيا کہ بیرون خانہ تبدیلی کی کوشش کرنے والے ناکام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست ادارے چلاتے ہیں اور جب تک ادارے مضبوط اور خود مختار نہيں ہوں، ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ’’اداروں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے، تو آپ کو بتاتا چلوں کہ اداروں کا تصادم صرف ایک بار ہوا اور وہ انیس سو ستانوے ميں ہوا، جب سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا گیا اور حملہ کرنے والوں میں سياسی لیڈرز اور سینیٹرز بھی شامل تھے۔‘‘

یاد رہے  کہ سابق آرمی جنرل پرویز مشرف کے غداری مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں موجود پیراگراف چھاسٹھ میں لاش کو ڈی چوک پر لٹکانے کی بات کی گئی تھی، جس کے بعد پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے پر فوج میں شدید غم و غصہ پايا جاتا ہے اور فوج کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ حکومتی اور عوامی حلقوں اور میڈیا پر بھی یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ان دنوں ملکی اداروں کے بیچ شدید تناؤ ہے۔ اس فیصلے کو لے کر عدلیہ اور پاک فوج آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ بلکہ اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ اس تصادم کے نتیجے میں نظام لپیٹا جائے۔ لیکن اب بابر اعوان کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا گیا کہ اداروں کے بیچ کوئی کشيدگی نہیں ہے۔    

سابق صدر پرویز مشرف کی اپیل کے بارے بات کرتے ہوئے بابر اعوان نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت مشرف کے فیصلے اور پیراگراف چھیاسٹھ پر قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے گی۔ مشرف کی اپیل ان کی غیر حاضری میں اعلی عدالت میں دائر کی جا سکتی ہے۔ بينظیر بھٹو کی اپیل بھی ان کی غیر حاضری میں سنی گئی تھی۔‘‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی کی جانب سے اس بات سے بظاہر یہی دکھتا ہے کہ پرویز مشرف کو واپس ملک نہیں لایا جا سکے گا بلکہ ان کی غیر حاضری میں ہی ان کی اپیل دائر کر کے ان کے لیے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پارلیمینٹ اور خصوصاً اپوزیشن کی پارلیمینٹ میں تقریروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بابر نے کہا کہ ایک سال چار ماہ اور پانچ دن ہو گئے ہیں ارکان پارليمان کو حلف اٹھائے ہوئے جبکہ پہلے ہی دن سے انہيں کام نہيں کرنے ديا جا رہا۔ پارلیمینٹ کو تقریری مقابلہ بنانے کی بجائے قانون سازی کا پلیٹ فارم بنایا جانا چاہيے۔ اعوان کے مطابق قوم پارلیمینٹ کی قانون سازی کی کارکردگی سے مایوس ہوئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر جو بھی فیصلہ کرے، اس سے انہيں آگاہ کیا جائے۔ اس معاملے پر بابر اعوان کا ای سی ایل سے نام نکالے جانے اور شریف خاندان کو باہر جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب نواز شریف نے کہا کہ وہ بیمار ہیں تو پی ٹی آئی نے کوئی سیاست نہیں کی۔ مریم نواز کو باہر جانے کی اجازات نہ دینا خالصتاً قانون کی بالا دستی ہے۔ ’’کوئی ایسا شخص جو سزا یافتہ ہو، اس کو وفاقی حکومت باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس میں عمران خان یا پاکستان تحریک انصاف کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا، جب ہم نے نواز شریف کو کہا کہ بیماری کی وجہ سے آپ بانڈ دے دیں۔‘‘