1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتفاق رائے سےانتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، عارف علوی

6 اکتوبر 2022

پاکستانی صدر نے جمعرات کے روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی ختم کرنے اور مل جل کر نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی اپیل کی۔

https://p.dw.com/p/4Hr7d
Islamabad | Sadr Arif Alawi, Abgeordneter
تصویر: Atif Tauqeer/DW

عارف علوی کا کہنا تھا کہ عوام فقط اس صورت میں متحد ہو سکتے ہیں، جب سیاست دان متحد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت انتہائی ضرورت ہے کہ سیاست دان باہمی اختلافات ختم کریں۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں سے گزر رہا ہے اور ایسے میں وہ بحالی کی سرگرمیوں میں شامل پاکستانی فوج کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسیکو سرگرمیوں میں شریک ہنگامی حالات سے نمٹنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ صدر عارف علوی نے کا کہنا تھا کہ امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کی جاتی تو سیلاب سے ہونے والا جانی اور مالی نقصان کہیں زیادہ ہوسکتا تھا۔

Pakistan Präsident Arif Alvi
صدر علوی نے سیاستدانوں کو باہمی اختلافات بھلا کر سیلاب متاثرین کی امداد پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیاتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/IMAGO

صدر مملکت نے کہا، ''میں پاکستانی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنھوں نے مسائل کے باوجود سیلاب زدہ علاقوں میں شہریوں کی مدد کی۔ میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں، قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جن کی بروقت کارروائیوں نے متاثرہ افراد کی مدد کی۔‘‘

اپنے خطاب میں عارف علوی نے ملکی خارجہ پالیسی پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کا ''اچھا دوست‘‘ رہا ہے اور موجودہ حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنا رہی ہے۔ اس خطاب میں عارف علوی نے فیک نیوز، سائبر سکیورٹی، اقتصادیات، الیکٹرانک ووٹنگ، تعلیم اور صحت سمیت کئی موضوعات پر بات کی۔

کیا پاکستان قبل از وقت انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے؟

اراکین پارلیمان کی جانب سے بائیکاٹ

سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، جس سے خود صدر عارف علوی کا تعلق بھی ہے، کے سینیٹرز اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ دوسری جانب موجودہ حکمران اتحاد کے متعدد اراکین نے بھی صدرعارف علوی کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ اس سے قبل حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے بھی صدر مملکت کے خطاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی فوج سیاست سے دور ہی رہے گی، جنرل باجوہ

Pakistan Karatschi Premierminister Mian Shahbaz
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان پارلیمان نے صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیاتصویر: CM House

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ رواں برس اپریل میں عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کارروائی روکنے کی منصوبہ بندی میں صدر عارف علوی شامل تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ صدر دستوری شکنی کا حصہ تھے۔ تاہم جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا حکومت صدر عارف علوی کے خلاف دستور شکنی کا کوئی مقدمہ قائم کرنا چاہتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی مقدمہ قائم کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا، ''میں واک آؤٹ کے حق میں نہیں ہوں۔ مگر آج بھاری اکثریت کی پارٹی کی رائے یہ تھی کہ یہ صدر وہ ہیں جنہیں نہ اپنے منصب کی پروا ہے اور نہ اپنی ذات کی پروا ہے۔ وہ صدر بننے کے بعد سے ہر موقع پر یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ وہ ایک پارٹی کے ورکر ہیں۔‘‘

پاکستان، آٹھ معاونین خصوصی کی تقرری پر تنقید کا طوفان

علی وزیر کہاں ہیں؟

اس موقع پر پارلیمان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی کے انتہائی کم اراکین شریک تھے۔ صدر کے خطاب کے موقع پر جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے رکن سینیٹ مشتاق احمد نے اس موقع پر زیر حراست رکن پارلیمان علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر نعرے بازی بھی کی۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں رکن پارلیمان محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لیے اسپیکر کو درخواست دی ہے۔

محسن داوڈ نے بتایا کہ علی وزیر کو تمام مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے تاہم شمالی وزیرستان میں ایک احتجاج سے جڑے ایک مقدمے میں سیشن کورٹ کی طرف سے ضمانت نہ ملنے کے بعد معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے، جس میں اگلے چند روز میں علی وزیر کو ضامنت مل جانے کی توقع  ہے۔

عاطف توقیر ، اسلام آباد

 

موروثیت: پاکستان میں جمہوریت کو لاحق سب سے بڑا چیلنج