1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ابنارمل تو ہم لوگ ہیں

24 جولائی 2020

فرانسیسی فلسفی روسو نے کہا تھا کہ بچے انسانیت کے سچے نمائندے ہوتے ہیں۔ ان میں کسی طرح کی بناوٹ یا مصنوعیت نہیں ہوتی۔ جو ان کے دل میں ہوتا ہے، وہ ہی ان کی زبان پر بھی ہوتا ہے۔ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3frY3
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

روسو کا خیال تھا کہ بچے کا ذہن تمام طرح کی نفرتوں سے پاک ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے، سماج کے مختلف ادارے اس کے ذہن کو نفرت کی آلودگی سے بھر دیتے ہیں۔

فیملی جو پہلا سماجی ادارہ ہوتا ہے، اس میں سب سے پہلے ماں یہ بتاتی ہے کہ بیٹا تو برہمن، کھتری، ویش یا شودر ہے، یا جاٹ، آرائیں، راجپوت، خان، ملک، سردار، سید اور غیر سید ہے۔ اسکول میں پاکستانی بچے کو بھارت سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے اور بھارتی بچے کے ذہن کو پاکستانیوں کے خلاف نفرت سے بھرا جاتا ہے۔ امریکی بچے کو بتایا جاتا ہے کہ روسی اس کا دشمن ہے اور روسی بچے کو بتایا جاتا ہے کہ امریکی اس کے لیے زہر قاتل ہیں۔ مختصر یہ کہ جب تک وہ سن بلوغت تک پہنچتا ہے یا شعور کے مختلف منازل طے کر چکا ہوتا ہے تب تک وہ ایک سند یافتہ آدم بیزار بن جاتا ہے۔

روسو کے خیال میں بچے میں فطری میلان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کے حوالے سے سوالات کریں اور ہر مسئلے پر جرح کرے۔ جستجو اس کے رگ وپے میں بسی ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں بچوں کے سوالات بعض اوقات عجیب وغریب لگتے ہیں اور لوگ سوالات اٹھانے والے بچے کو بسا اوقات ابنارمل بھی قرار دے دیتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ ہوا ہماری ایک عزیزہ کے ساتھ، جو کینیڈا سے کراچی میں منتقل ہوئیں اور ان کے 8 سالہ سقراطی بچے عالیان نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ عالیان عجیب سی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا جب وہ دیکھتا کہ جون کی سخت گرمی میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بچے روڈ پر ننگے پیر چلتے ہیں۔ اس کا ضمیر مجرمانہ انداز میں اسے ملامت کرتا جب وہ مہنگے اور خوبصورت لباس پہن کر میکڈونلڈ جاتا اوراس کو راستے میں کئی لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس نظر آتے۔

غرض یہ کہ اس کے اردگرد نے اس کے وجود میں ایک ہیجان برپا کر دیا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر سوتے ہوئے انسانوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور وہ اپنی ماں پر سوالات کی بارش کر دیتا۔ وہ خوصورت بنگلوں کے ساتھ کچی بستیوں کو دیکھ کر حیران و پریشان رہ جاتا۔ جب وہ دیکھتا کہ لوگ کار سے بھکاری بچوں کو سکہ پھینک کر دیتے ہیں تو اسے ایسا لگتا کہ وہ سکہ ایک گولی ہے، جو اس کی جان لے لے گی۔

اس عجیب و غریب رویے نے عالیان کی ماں کو مجبور کیا کہ وہ اسے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائے، جس نے بغیر وقت ضائع کئے یہ اعلان کر دیا کہ بچہ ابنارمل ہے، جس کے بعد علاج کے لیے عالیان کی ماں اسے واپس کینیڈا لے گئیں۔

بلوچستان: ’نامعلوم عناصر‘ کی معلوم کارروائیاں

بلاگ: فیشن کی دوڑ

’صحافت بھی تو ستھری نہیں رہی‘

لیکن میں سوچتی ہوں کہ ابنارمل عالیان تھا یا یہ سماج، یہ دنیا، یہ ملک یا ہم لوگ جو انسانوں میں پائی جانے والی احساس بیگانگی کا ادراک نہیں کرتے۔ عجیب وغریب رویہ اس کا تھا یا ہمارا کہ ہم غربت کے بحرالکاہل میں طمطراق سے کھڑے ہوئے امارت کے جزویروں پر سوالات نہیں اٹھاتے۔

ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیوں آج ایک طرف سوڈان اور صومالیہ میں بھوک و افلاس کی وجہ سے ہمیں انسانی ڈھانچے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف امریکا ہزاروں ٹن گندم بحر الکاہل میں سمندر برد کر دیتا ہے۔ ایک طرف عراق میں پانچ لاکھ بچے دودھ نہ ہونے کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں اور دوسری طرف برطانیہ کے ندی اور نالوں میں ہزاروں ٹن دودھ بہا دیا جاتا ہے۔

ایک طرف بمبئی، ریو، کراچی، منیلا، بنکاک سمیت دنیا کے کئی بڑے شہروں میں انسان کیڑے مکوڑں کی طرح تنگ و تاریک کچی آبادیوں میں رہتے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے امیر ترین افراد اٹلی اور لاطینی امریکا کے لاکھوں ایکڑز پر محیط جزیروں پر اپنے جنم دن کی مبارک بادیں وصول کر رہےہوتے ہیں۔

کیوں ایک طرف دنیا کے دو ارب انسان ایک ڈالر سے بھی کم پر روزانہ گزرا کر رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے صرف پانچ سو امیر افراد کی کمائی اتنی ہوتی ہے کہ اگر ان کو افلاس ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو کوئی بھی انسان شکم کی آگ بجھانے کے لیے اپنے بچوں کو موت کی آگ میں نہ پھینکے۔

کیوں ہم تہذیب کے تمام تردعووں کے باوجود پہلی عالمی جنگ میں دو کروڑ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور دوسری عالمی جنگ میں کیوں ہم اپنی ہولناکیوں کی انتہا پر پہنچ کر، اپنے وجود کے عفریت کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں، جو سات کروڑ انسانوں کے لہو سے غرارے کرتا ہے اور ہر طرف تباہی مچاتا ہے۔

خوف و وحشت کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ تیس لاکھ کوریا کی جنگی میدانوں میں، ستر لاکھ ویت نام کے جنگلوں میں، دس لاکھ سے زیادہ افغانستان کے پہاڑوں میں، پچیس لاکھ سے زیادہ عراق کے ریگستانوں میں اور پانچ لاکھ شام کے قبرستانوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

عالیان کے سوالات ہمیں ابنارمل لگتے ہیں لیکن ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ترقی پذیر ملکوں میں جو کسان دھرتی کی چھاتی چیر کر اناج اگاتا ہے، اس کےگھر پر فاقوں کا راج کیوں ہوتا ہے اور وہ زمیندار یا وڈیرہ، جس کی حیثیت ایک طفیلیے سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ اناج سے مالا مال کیوں ہوتا ہے۔

ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ایسا اس نظام میں کیا ہے کہ ایک مزدور خوبصورت بنگلہ بناتا ہے اور خود جھونپڑ ی میں رہتا ہے۔ بہترین کاریں بناتا ہے لیکن خود سائیکل بھی نہیں خرید سکتا۔ کیوں اس کوصرف اتنا ہی ملتا ہے کہ وہ اپنے جسم و جاں کا رشتہ بمشکل بر قرار رکھ سکے۔

ساحر کی زبان میں ہمارا عالیان کی طرح اس کہنہ نظام کے علمبرداروں سے سوال کرنا بنتا ہے کہ:

یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا

کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا

کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے

حقیقت یہ ہے کہ عالیان کے سوالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ابنارمل وہ نہیں بلکہ ابنارمل تو ہم لوگ ہیں۔