1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخیورپ

ابتدائی یورپ کا مقبول کلچر، اشرافیہ اور عوام میں تقسیم

15 اکتوبر 2021

تاریخ کے عمل میں تہذیب اور کلچر کا بڑا حصہ ہے۔ تہذیب کی اصطلاح اٹھارویں صدی سے فرانس سے شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ یورپی ملکوں نے اسے اختیار کیا۔ جب انسانی معاشرہ طبقاتی ہوا تو اس نے کلچر کی بنیادیں بدل دیں۔

https://p.dw.com/p/41iPe
Brautentführung
تصویر: Imago/imagebroker

تہذیب سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے ذریعے مادی مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور کلی طور سے ان کی اس سے مراد ذہن و شعور کی تربیت یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ روحانی طور پر کردار کی تشکیل کرنا ہے۔

جب انسانی معاشرہ طبقاتی ہوا تو اس نے کلچر کی بنیادیں بدل دیں۔ مورخین نے اشرافیہ کے کلچر کو پہلے 'گریٹ کلچر‘ اور عوام کے کلچر کو 'لٹل کلچر‘ لکھا۔ بعد میں یہ اصطلاحات بدل کر '’ہائی کلچر‘‘  اور '’پاپولر کلچر‘‘  کہلائیں۔ ہائی کلچر یا بالادست کلچر کا تعلق اشرافیہ سے تھا اور پاپولر یا مقبول کلچر عوام سے تعلق رکھتا تھا۔ مورخین میں اس پر بھی بحث ہے کہ کیا بالادست کلچر نے مقبول کلچر کو متاثر کیا یا مقبولِ عام کلچر نے بالادست کلچر کو متاثر کیا یا پھر یہ دونوں کلچر ہمیشہ سے جدا رہے اور کیا ان میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی تھی؟

اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپی ملکوں میں عوامی کلچر کی تلاش شروع ہوئی۔ اس کی سیاسی اور سماجی وجوہات تھیں۔ یورپ پر صنعتی اور فرانسیسی انقلابیوں کے گہرے اثرات ہوئے تھے۔ فرانسیسی انقلاب نے مساوات کے جذبے کو ابھارا تھا جبکہ صنعتی انقلاب نے عدم مساوات کو پیدا کیا تھا۔ اس لئے معاشرہ ان دو متضاد افکار کے تصادم میں تھا۔

 اس کے علاوہ مسیحی دنیا کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ جرمنی خاص طور سے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور اس کے دانشوروں کی خواہش تھی کہ جرمن زبان اور تاریخ کے ذریعے اس کے اتحاد کو باقی رکھے۔ اس صورت حال میں مقبولِ عام کلچر کو دریافت کرنے کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ اس کے ذریعے یورپی اقوام اپنے ان زخموں کو بھرنا چاہتی تھیں، جو خانہ جنگیوں اور آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔

Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

جرمنی میں اس کی ابتداء گریم برادرز اور فلسفی گوٹ فرائیڈ ہرڈر نے شروع کی۔ گریم برادرز نے فوک ادب کو تلاش کر کے اس سے متعلق گیت، کہانیاں، کہاوتیں اور ضرب الامثال کو جمع کیا۔ اُس نے نہ صرف جرمن زبان کو زرخیز بنایا بلکہ اس کی گمشدہ تاریخ کو بھی واپس لایا۔

اس موضوع پر پیٹر برگ نے اپنی کتاب ''پاپولر کلچر اِن ارلی یورپ‘‘ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق مقبول کلچر کی بنیادیں عام لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں ملتی ہیں۔ عام لوگوں میں کسان، مزدور، کان کن، معمار، موچی، جولاہے، تاجر، لوہار، بڑھئی وغیرہ شامل تھے۔ عورتیں چونکہ گھروں میں رہتی تھیں اور ان کی اپنی دنیا تھی۔ اس لئے ان کے گیتوں، کہانیوں اور کہاوتوں میں ان کی زندگی کے اپنے تجربات شامل ہیں۔

پیٹر برگ نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اس ابتدائی دور کے تہوار، رسومات، رقص اور موسیقی میں عیسائیت سے پہلے پیگن دور کے اثرات بھی شامل ہیں۔ یعنی ان میں ہمیں ایک تسلسل ملتا ہے۔ مثلاً پیگن زمانے میں پچیس دسمبر ان کا ایک مذہبی تہوار تھا، جسے بعد میں کرسمس کی شکل دے دی گئی۔ کرسمس کے بعد لوگ کارنیوال مناتے تھے، جس میں مجمع چہروں پر ماسک لگا کر گیت گاتا اور رقص کرتا تھا۔ اس میں عورتیں اور مرد برابر کے شریک ہوتے تھے بلکہ اشرافیہ کے افراد بھی آجاتے تھے۔ کبھی کبھی کارنیوال میں فسادات بھی ہو جاتے تھے۔

عوام اپنے جذبات کا اظہار تھیٹر اور ناٹک کی صورتوں میں کرتے تھے۔ گاؤں دیہات میں یہ کھلے میدان میں ہوتے تھے، جبکہ شہروں میں بازار کے چوک پر دریا کے پل پر ڈرامے کیے جاتے تھے۔ ان ڈراموں کے ذریعے عام لوگ نہ صرف اپنے تواہمات اور مذہب سے عقیدت ثابت کرتے تھے بلکہ حکمران طبقوں پر طنز بھی کرتے تھے۔ دیہات اور شہروں میں لوگوں کے باہمی ملنے کی جگہیں شراب خانے، بھٹیار خانے اور ڈھابے ہوا کرتے تھے، جہاں لوگ مل کر گیت گاتے اور رقص کرتے تھے۔ ان محفلوں میں لوگ حالات حاضرہ پر بھی تبصرہ کیا کرتے تھے۔ جب لوگوں میں سیاسی شعور آیا تو ان پبلک مقامات پر حکمران طبقوں پر تنقید بھی ہونے لگی۔

مقبولِ عام کلچر کے گیتوں اور کہانیوں میں ہیروز اور ولنز کی بھی تشکیل ہوئی۔ وہ حکمران، جن کا رویہ عوام کے ساتھ بہتر تھا، انہیں وہ عادل، رحم دل، فیاض اور پرہیزگار کا خطاب دیتے تھے۔ ان کے ہیروز میں فاتحین، جنگجو اور ہلاک ہونے والے بھی شامل تھے۔ بعض حالات میں مشہور ڈاکو بھی ہیرو کا درجہ حاصل کر لیتے تھے۔ جن لوگوں سے وہ نفرت کا اظہار کرتے تھے، ان میں سود خور، وکیل، عدالت کے منصف، ڈاکٹرز اور نوکر شاہی کے افراد ہوتے تھے، جو ان کا استحصال اور ظلم کرتے تھے، خاص طور سے ٹیکسوں کی ادائیگی کی وجہ سے۔

ان کے تہوار نہ صرف مذہبی بلکہ موسموں کے اعتبار سے بھی یہ منائے جاتے تھے اور ان مواقع پر گیت گانا، رقص کرنا، شراب پینا اور عمدہ کھانا شامل ہوتا تھا۔

اٹھارویں صدی تک اشرافیہ کے لوگ بھی عوام کے ساتھ شامل ہو جایا کرتے تھے لیکن پندرہویں صدی سے سترہویں صدی کے دوران فرق پیدا ہونا شروع ہوا۔ اشرافیہ کے لوگ تعلیم یافتہ ہونے لگے اور ان کے کلچر پر درباری ادب آداب اور رسومات کی چھاپ پڑنی شروع ہوئی۔ ان کی رہائش گاہیں عالی شان ہو گئیں، جہاں اب عام لوگوں کی پہنچ نہیں تھی۔

 ان کا لباس قیمتی ہو گیا، ان کی موسیقی، آرٹ، رقص اور تھیٹر کے عالیٰ معیار بنائے گئے۔ ان کی زبان شُستہ اور نفیس ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ بعض ملکوں میں حکمران طبقے عوام کی زبان بولتے ہی نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے دونوں کلچرز کے درمیان دوری ہوتی چلی گئی۔ بالادست طبقوں کی نظر میں عوام ان پڑھ، جاہل اور قوام پرست تھے، ان کی نظر میں عوام انسانیت سے گرے ہوئے تھے۔

چرچ نے بھی اس مقبولِ عام کلچر کے خلاف پراپیگنڈہ کیا۔ ان کی نظر میں ان کے گیتوں اور رقص میں فحاشی ہوتی تھی اور اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے وہ مذہب سے دور ہو رہے تھے۔ متوسط طبقہ بھی، جو تعلیم یافتہ ہو گیا تھا، اس کی نظر میں عوام اور ان کا کلچر باعث عزت نہیں تھا۔ ان دونوں رحجانات نے بالادست اور مقبول کلچر کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔

لیکن اٹھارویں صدی ہی میں جب یورپ میں قومی ریاست کی بنیاد پڑی اور قوم پرستی کے جذبات اُبھرے تو دانشوروں اور سیاست دانوں نے یہ محسوس کیا کہ ٹھکرائے ہوئے اور بھولے ہوئے مقبول کلچر کو واپس لایا جائے، تاکہ وہ قوم کے منتشر اجزاء کو ہم آہنگ کر کے ان کو اپنی شناخت دیں۔