1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

3 فروری 2021

میانمار میں فوج کے ٹیلی وژن چینل کے مطابق آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ootg
Myanmar Aung San Suu kyi
تصویر: Thet Aung/AFP/Getty Images

نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کو پیر یکم فروری کو فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اس وقت اپنے گھر پر نظر بند ہیں۔ فوج نے سول حکومت کو فارغ کرنے کے بعد صدر اور سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے تقریبا تمام نومنتخب اراکینِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے رکھا ہے۔میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ: عالمی تنقید اور تشویش

بغاوت کا مقدمہ

آنگ سان سوچی کے خلاف پولیس نے بدھ تین فروری کو مقدمہ درج کیا۔ پولیس کے مطابق بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی وجہ ان کا ملک کے تجارتی قوانین سے انحراف ہے۔ پولیس نے مقامی عدالت سے انہیں پندرہ فروری تک حراست میں رکھنے کی استدعا کی ہے۔

دوسری جانب فوج نے آنگ سان سوچی کی رہائش گاہ کی تلاشی بھی لی ہے۔ اس تلاشی کے دوران ان کے پاس سے مبینہ طور پر بغیر اجازت امپورٹ کیے گئے 'ریڈیوز‘ برآمد کیے گئے ہیں۔

Myanmar Naypyitaw Senior General Min Aung Hlaing und NLD Partei Anführer Aung San Suu Kyi
انگ سان سوچی اور فوج کے سربراہ من انگ ہلینگتصویر: Soe Zeya Tun/REUTERS

صدر کے خلاف بھی پولیس کارروائی

پولیس کے مطابق سابق صدر وِن مِنٹ کے خلاف قدرتی آفات کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان پر گزشتہ برس انتخابی مہم کے دوران کووڈ انیس کی وبا کے نافذ شدہ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ریلی میں شریک ہونے کے الزام لگایا گیا ہے۔

فوج کا اقدام

میانمار کی فوج نے حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا ہے۔ فوج ایک سال بعد پارلیمانی انتخابات کروانے کا اعادہ کر چکی ہے۔میانمار: ملک پر فوج کا کنٹرول، آنگ سان سوچی حراست میں

میانمار میں یکم فروری کو نو منتخب پارلیمنٹ نے حلف اٹھانا تھا۔

فوج نے اراکینِ پارلیمنٹ کو سرکاری  رہائش گاہیں فوری طور پر خالی کرنے کا بھی حکم دے رکھا ہے۔

فوج گزشتہ برس کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے اور اس نے افتتاحی اجلاس کے انعقاد کے بجائے آنگ سان سوچی کی حکومت کو دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ انتخابات میں خاتون رہنما کی سیاسیجماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

Japan Proteste vor Außenministerium in Tokio - Militärputsch in Myanmar
دنیا کے کئی ممالک میں رہنے والے میانمار کے شہریوں نے فوج کے خلاف مظاہرے کیے ہیںتصویر: Issei Kato/REUTERS

جی سیون گروپ کی مذمت

ادھر صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ ان ممالک کو فوجی اقدام پر گہری تشویش ہے۔سوچی کی گرفتاری سے روہنگیا مہاجر خوش کیوں ہیں؟

جی سیون گروپ نے کہا ہے کہ فوج فوری طور پر ایمرجنسی ختم کرے اور جمہوری حکومت کو بحال کرے۔ اس بیان میں میانمار کی فوج سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا ہر ممکن احترام کرے۔

امیر ممالک کے جی سیون گروپ میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، امریکا، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔

نیتالی الیکس (ع ح، ش ج)