آنگ سان سوچی جمہوریت سے منہ موڑ چکیں، شیریں عبادی
8 ستمبر 2017میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم نے وہاں کی ڈی فیکٹو رہنما سوچی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ آنگ سان سوچی کو اُن کی روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر خاموشی اور میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر کیے جانے والے مبینہ ظلم و ستم کی مذمت نہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
روہنگیا مسلمان میانمار میں نسلی اقلیت ہیں اور ان کی زیادہ آبادی مغربی صوبے راکھین میں رہائش پذیر ہے۔ میانمار کی حکومت روہنگیا اقلیت کو سرکاری طور پر اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور کئی عشروں سے ملک کی بدھ اکثریت پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے اور اُنہیں مظالم کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
حالیہ دنوں میں متعدد عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی سطح پر معروف شخصیات نے سوچی سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں سوچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا،’’میں اب بھی اپنی نوبل پرائز یافتہ ساتھی آنگ ساں سوچی کی جانب سے ایسی ہی مذمت کا انتظار کر رہی ہوں۔ یہی انتظار تمام دنیا اور روہنگیا مسلمان بھی کر رہے ہیں۔‘‘
ملالہ کے بعد ایرانی نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی نے بھی میانمار میں روہنگیا اقلیت پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی ہے۔ عبادی نے ڈی ڈبلیو کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس تمام وقت میں سوچی کی حمایت کی جب وہ ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے نظر بند تھیں۔
عبادی نے تاہم ایک نکتے کی وضاحت کی اور وہ یہ کہ عام طور پر لوگ سوچی کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی رہنما سمجھتے ہیں۔ شیریں عبادی کا کہنا تھا،’’ سوچی نے کبھی بھی انسانی حقوق کے لیے کام نہیں کیا۔ وہ ایک سیاستدان ہیں جنہوں نے سن انیس سو نوے کے آزادانہ انتخابات جیتے لیکن ملک کی فوجی جنتا کے ہاتھوں قید کر لی گئیں۔ سوچی نے اپنے حامیوں کو فساد پر اکسانے کی بجائے ایک پرامن مزاحمت کا انتخاب کیا۔‘‘
سابق ایرانی جج عبادی کا کہنا تھا کہ سوچی کی فوجی آمریت کے خلاف پر امن مزاحمت نے ہی انہیں نوبل پرائز کا حقدار بنایا تھا۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سوچی نے جمہوریت سے منہ موڑ لیا۔ شیریں عبادی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،’’ جمہوریت کا مطلب ہے کہ ایک ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو شہریت نہیں دی گئی اور وہ ملک میں بدھ مت کے ماننے والوں اور برمی فوج کی جانب سے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔‘‘
عبادی کی رائے میں تاہم سوچی سے نوبل انعام کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔ شیریں عبادی کے مطابق سوچی نے نوبل انعام جبر کے سامنے پر امن احتجاج کر کے حاصل کیا تھا۔ تب وہ اس کی حقدار تھیں۔ ایرانی ایکٹیوسٹ کی رائے میں،’’نوبل انعام حاصل کرنے والے اس کے حصول کے بعد اپنے رویوں میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اس سے نوبل کمیٹی کا کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
خیال رہے کہ میانمار کی نوبل پرائز یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے الزام کو مسترد کیا ہے۔ علاوہ ازیں آنگ سان سُوچی نے اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے اُس فیصلے کو رَد کر دیا تھا، جس میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔