1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

"آئی ہارٹ کراچی"، انسانیت کے لیے کوشاں افراد کو خراج تحسین

عنبرین فاطمہ9 ستمبر 2014

کراچی کی خطرناک صورتحال کے باوجود بھی اس شہر کے کچھ باسی ہر خطرے کو پس پشت ڈال کر اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں محو ہیں۔ ڈائریکٹر شرمین عبید چنائے نے دستاویزی فلم آئی ہارٹ کراچی میں ایسے لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D9Cq
تصویر: SOC films

"آئی ہارٹ کراچی" نامی یہ دستاویزی فلم پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں کراچی کے مشکل ترین حالات میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے والے پانچ افراد کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے یہ پانچوں افراد ایسے علاقوں میں بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، جہاں عموماً جانے سے پہلے لوگ کئی بار سوچتے ہیں۔
اس دستاویزی فلم کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو تفصیلات بتاتے ہوئے فلم کی پروڈوسر حیا فاطمہ نے بتایا، " کراچی میں وہ لوگ جو خطرناک نوکریاں کرتے ہیں بغیر کسی منافع کی امید کے اور صرف یہ سوچ کر کہ ان کی خدمت سے شہر کچھ محفوظ ہو سکے، ہم نے ان لوگوں کو اس دستاویزی فلم کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اسی سلسلے میں ہم نے پانچ حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم بنائیں، جس میں ہر منی ڈاکومنٹری کے لیے ایک کردار کو منتخب کیا گیا۔"

I heart Karachi (Dokumentation)
تصویر: SOC films

پندرہ منٹ کی اس دستاویزی فلم کو تین منٹ کے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے ہر حصے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے حیا نے کہا کہ، " ایک ہیں ہمارے پولیس آفیسر، عابد فاروق۔ ان کا تعلق سندھ پولیس سے ہے اور وہ بم ناکارہ بناتے ہیں۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر کراچی میں سب سے زیادہ بم عابد فاروق نے ہی ناکارہ بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ ظفر احمد ہیں جو کراچی میں آگ بجھانے کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کئی بار زخمی بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ دستاویزی فلم کا ایک کردار شاہد انجم ہیں۔ وہ ایک نجی ٹی وی چینل پر کرائم رپورٹر ہیں جو اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے قطع نظر ہم تک سچ پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سیمی جمالی ہیں جو جناح ہسپتال کی جوائنٹ ڈائریکٹر کے علاوہ شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ ہیں۔ شہر میں کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے تو متاثرہ افراد ان کے پاس آتے ہیں۔ اس دستاویزی فلم کا آخری کردار نسیم اختر ہیں جو پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کا حصہ تھیں۔ ان کی ذمہ داری میں لانڈھی شامل تھا جو پولیو کے خلاف کام کرنے والوں کے لیے انتہائی خطرناک علاقہ تھا۔ گھریلو ناچاقی کے باعث ان کے شوہر نے انہیں قتل کر دیا۔ یہ وہ خاتون تھیں جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کام کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہیں تاہم ان کی زندگی کا خاتمہ ان کے اپنے شوہر کے ہاتھوں ہوا۔"

آئی ہارٹ کراچی کے فوٹوگرافی ڈائریکٹر اسد فاروقی کے مطابق اس فلم کی عکسبندی کے دوران ان کو احساس ہوا کہ کراچی کے ایسے لوگ جو شہر کو رہائش کے قابل بنانے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان کے بارے میں ہم ایک بار بھی نہیں سوچتے، "جس جانفشانی سے یہ لوگ کام کرتے ہیں ان کو خود بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگوں کے نظروں میں یہ صرف ایک ڈیوٹی ہے مگر اصل میں یہ لوگ شہر کے لیے ایک سرمایہ ہیں۔ ان کے کام سے نہ صرف بہت سی جانیں بچتی ہیں اور بہت سے لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ ہم اس شہر میں رہتے ہوئے کبھی نا کبھی ان کے کام سے ضرور متاثر ہوتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی اندازہ۔ امید یہ ہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہو کہ ہمارے یہ ہیروز ہمارے لیے کیا کام کر رہے ہیں۔"

حیا فاطمہ کے مطابق اس فلم کی اسکرینگ کی جا چکی ہے اور اب اسے شہر کے مختلف اسکول، کالج اور جامعات میں دکھایا جائے گا تاکہ نئی نسل کو یہ بتایا جائے کہ کس طرح شہر کے چند لوگ حالات کو بہتر اور شہر کو محفوظ کرنے کے جذبے سے سرشار کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کوشش ہے کہ اسے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیا جائے، "ہمارا ارادہ ہے کہ اس دستاویزی فلم کو پاکستان کے مقامی چینلز کے ذریعے عوام کو دکھایا جائے۔ کیونکہ ہمارے مقامی میڈیا میں تشدد اور دہشت گردی کی خبریں تو آتی ہی ہیں لیکن جو مثبت کام کر رہے ہوتے ہیں، ان کو اتنی کوریج نہیں ملتی۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اصل زندگی کے ان ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہم اسے مقامی میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کریں۔"

I heart Karachi (Dokumentation)
تصویر: SOC films