آئی ایس کے بارے میں اوباما کی نئی حکمت عملی: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
11 ستمبر 2014جب امریکی صدور کسی نئی جنگ یا فوجی تنازع کا اعلان کرتے ہیں تو جذباتی ہو جاتے ہیں۔ وہ اس کا جواز، اس کی وجوہات اور اس کے نتائج بیان کرتے نہیں تھکتے۔ یعنی جنگ کیوں ضروری ہے، جنگ کا فاتح کون ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگ کی قیادت امریکا ہی کو کیوں کرنا چاہیے؟ بالکل یہی ڈھنگ باراک اوباما کی وائٹ ہاؤس سے نشر ہونے والی تقریر کا بھی تھا۔ انہوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ آئی ایس کے جرائم بیان کیے۔ انہوں نے عراقیوں، کردوں، فری سیرین آرمی اور دیگر اتحادی اسلامی ریاستوں کی مدد سے جنگ میں فتح کے حصول کا منصوبہ پیش کیا۔ بڑے جذباتی انداز میں اوباما نے حال ہی میں ایک بیان میں اس امر پر زور دیا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنے کا اہل صرف امریکا ہی تھا۔
ایک واضح تقریر
باراک اوباما نے اس بارے میں وضاحت پیش کی کہ عراق اور افغانستان کی جنگ اور آئی ایس کے خلاف فوجی تعیناتی کے عمل میں کیا فرق ہے۔ اوباما کے بقول آئی ایس کے خلاف کوئی امریکی جنگی دستے تعینات نہیں کیے جائیں گے تاہم انہوں نے آئی ایس کی تباہی کا موازنہ یمن اور صومالیہ میں امریکی فوجی کارروائیوں سے کیا۔ صومالیہ میں ماضی کی طرح اب بھی انتشار اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ یمن میں مختلف متحرب گروپ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ یمن میں القائدہ گروپ ایک فعال اور کامیاب حکومت کی غیر موجودگی ہی میں اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ تلاش کر سکتے ہیں۔ آئی ایس کے خلاف فتح کے معنی کو ہم جیسے بھی بیان کریں ایک بات طے ہے، وہ یہ کہ صومالیہ یا یمن میں ایسی فتح کے حصول کی کوشش ایک بڑا المیہ ثابت ہوگی۔
غیر متوقع نتائج
اوباما نے اپنی تقریر میں اگرچہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کا ذکر ضرور کیا ہے، کیونکہ آئی ایس کے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تشکیل میں آنے والا اتحاد کہیں سے بھی مستحکم نہیں ہے۔ عراق میں اگرچہ ایک نئی حکومت قائم ہو گئی ہے، جس کا اوباما نے خاص طور سے ذکر بھی کیا، تاہم وہاں سنی اور شیعہ باشندوں کے مابین اختلافات اور خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ عراقی حکومت میں اب تک وزیر دفاع کا تقرر نہیں ہوا ہے۔ عراقی کرد فی الحال بغداد حکومت کے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاہم وہ بالاآخر اپنے لیے ایک خود مختار ریاست چاہتے ہیں۔ باراک اوباما نے سعودی عرب میں فری سیرین آرمی کی تربیت کی ایک خوبصورت تصویر پیش کی تاہم کسے خبر کہ جنگ کے میدان میں آئی ایس کے انتہا پسند جنگجوؤں کے خلاف لڑنے والے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے کیونکہ آئی ایس کے دستوں میں شامل جنگجوؤں کا ایک بڑا حصہ عراقی پیشہ ور فوجیوں پر مشتمل ہے۔ اوباما امریکا کے کوئی پہلے صدر نہیں ہوں گے جنہوں نے ضرورت سے زیادہ خوش امیدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جنگ میں شرکت کی اور بعد میں اُسے پتہ چلا کہ نتیجہ بالکل اُس کے برعکس نکلا، جس کی وہ امید کر رہے تھے۔۔
ہدف حاصل
اوباما نے اپنی تقریر میں اپنی قائدانہ خواہش کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کی۔ ان شکوک و شبہات کا تعلق اس سے ہے کہ اوباما کی حکمت عملی کا مرکزی نقطہ آئی ایس کے خلاف جنگ ہے اور یہ کہ وہ اب عالمی سطح پر امریکا کے ایک خصوصی کردار پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ ایک ایسے قائد اور کمانڈر ہو سکتے ہیں جو دشوار فیصلے کر سکتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اوباما کے بیانات میں وزن اُس وقت پیدا ہو گا جب آئندہ دنوں کے دوران کانگریس کی طرف سے انہیں حمایت حاصل ہو گی اور اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ کے منصوبے کے لیے کانگریس بجٹ کی منظوری دے گی۔ پھر یہ سب کسی امریکی صدر کی یاس و امید نہیں ہوگی بلکہ اسے امریکا کی ایک حقیقی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جائے گا جسے امریکا کے تمام سیاسی اکابرین کی حمایت حاصل ہو گی۔