1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’آئی ایس میں بڑے پیمانے بھرتیاں‘‘ عراق اور شام کی کارروائیاں جاری

عدنان اسحاق19 اگست 2014

موصل ڈیم پر قبضے کے بعد عراقی فورسز نے تِکرِت کو اسلامک اسٹیٹ سے آزاد کرانے کے لیے آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کچھ اہم عمارتیں اب ملکی دستوں کے کنٹرول میں آ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Cwzf

امریکی صدر باراک اوباما زمینی دستے عراق نہیں بھیجنا چاہتے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فوجی کارروائی میں وقت لگ سکتا ہے۔ اوباما نے کہا کہ امریکا نےآئی ایس کو شکست دینے کے لیے ایک طویل المدتی منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس سلسلے میں عراق کی نئی حکومت کے ساتھ تعاون بھی جاری رکھیں گے: ’’یہ ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہے کہ ہم اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اور لوگوں کو ذبح کرنے والے وحشیوں کے ایک گروہ کو کنٹرول کیا جائے۔‘‘

امریکی صدر کا کہنا تھا: ’’آئی ایس، عراق سمیت پورے خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔ وہ سنیوں کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں لیکن وہ سنیوں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔ آئی ایس غیر ملکی فوجوں کے خلاف ہیں لیکن وہ اپنے نفرت انگیز نظریہ کو فروغ دینے کے لیے بیرون ملک سے جنگجو بھرتی کر رہے ہیں۔‘‘

IS Kämpfer Irak Syrien ARCHIV Juni 2014
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی فضائی حملوں کے تناظر میں شدت پسند تنظیم آئی ایس نے بھی امریکا کو دھمکیاں دی ہیں۔ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ وہ تمام دشمنوں کو خون میں نہلا دیں گے۔

امریکا کی جانب سے عراق میں شدت پنسد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانےکے بعد شامی صدر بشارالاسد نے بھی آئی ایس کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو دنوں کے دوران شامی فضائیہ نے اس شدت پسند تنظیم کے زیر قبضہ علاقوں پر بمباری کی۔ دمشق حکومت ایک طویل عرصے تک اس تنظیم کی پر تشدد کارروائیوں کو نظر انداز کرتی رہی تھی۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ ماہ تقریباً چھ ہزار نئے جنگجوؤں کو اسلامک اسٹیٹ میں بھرتی کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عراق اور شام میں آئی ایس کے شدت پسندوں کی تعداد 15 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ سیریئن آبزرویٹری کے رامی عبدالرحمن نے بتایا کہ نئے بھرتی ہونے والے جنگجوؤں میں ایک ہزار غیر ملکی ہیں جبکہ باقی کا تعلق شام سے ہے۔

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شام میں مسلح گروپوں کے پاس اینٹی ایئر کرافٹ میزائل بھی ہیں، جنہیں آسانی سے ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ میزائل شام سے اسمگل ہو سکتے اور شدت پسند ان کے ذریعے آسانی سے مسافر بردار طیاروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکی حکام نے تمام قومی ایئر لائنز کو شامی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اسی دوران پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے شمالی عراق میں لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہو جانے والے پچاس ہزار افراد کے لیے ایک بڑا امدادی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔