1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ عام انتخابات اور پاک جرمن تعلقات

شیراز راج ناؤمی کونراڈ
24 جولائی 2018

جرمنی کو پاکستان کے آئندہ انتخابات میں فوج کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار اور میڈیا پر ہونے والے کریک ڈاؤن پر تشویش ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں انتہائی اہم اتحادی ملک پر براہ راست تنقید کرنا مشکل ہے۔

https://p.dw.com/p/31zWb
Pakistan Wahlen in Lahore im Wahlbezirk von Nawaz Sharif
تصویر: Reuters/M. Raza

یہ جولائی کے ابتدائی دنوں میں، جمعہ کی ایک دوپہر تھی اور برلن میں بیشتراراکین پارلیمنٹ کے دفاتر خالی ہو چکے تھے۔ راہداریاں بھی خاموش اور خالی تھیں کیونکہ بیشتر اراکین پارلیمنٹ موسم گرما کی چھٹیوں پر جا چکے تھے۔ لیکن جرمنی کی بائیں بازو کی جماعت (ڈی لِنکے) کے رکن پارلیمنٹ ٹوبیاس فلوگر کو گھرجانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ فلوگر جنوبی ایشیا سے متعلق پارلیمانی گروپ کے سربراہ ہیں اور چند ماہ پہلے ہی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران، انہوں نے اپنی میز پر رکھے ایک ایک بریفنگ پیپر کی جانب اشارہ کیا جسے دفتر خارجہ نے تیار کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دستاویز میں جرمن دفتر خارجہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہم اتحادی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن ان کے بقول، ’’جرمن وزارت خارجہ فوجی آپریشن پر ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔‘‘ وہ 2012ء  میں جرمنی اور پاکستان کی دفاعی وزارتوں کے مابین ہونے والے ایک باہمی معاہدے کی بات کر رہے تھے جو، اعلی فوجی افسروں کی  باہمی ملاقاتوں کے علاوہ، فوجی تربیت کے ان پروگراموں پر مشتمل ہے جو ہیمبرگ میں واقع جرمنی کی فوجی اکیڈمی میں دیے جاتے ہیں۔ جرمن وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ جرمنی اور پاکستان کے مابین قائم فوجی شراکت داری کا مقصد ’’پاکستانی فوج کو مہارتوں اور علوم کی منتقلی  اور طویل المدتی دو طرفہ تعلقات کا قیام‘‘ ہے۔

جمہوریت محض انتخابات کا نام ہی نہیں

پاکستان میں مذہبی ووٹ جیتنے کی دوڑ

تاہم پاکستانی سیاست میں فوج کی بالادستی کا معاملہ دو طرفہ تعلقات میں ایک ممکنہ وجہ نزاع ہے۔ فوج، جسے عام طور پر انتظامیہ کہا جاتا ہے، کے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ وہ پس پردہ رہ کر پاکستانی سیاست کی ڈوریاں ہلاتی ہے۔ کئی صحافی (نام نہ بتانے کی شرط پر) کہتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں اور میڈیا پر ہونے والے غیر معمولی کریک ڈاؤن کے پیچھے دراصل فوج ہے۔ کچھ صحافی کھلم کھلا بھی یہ بات کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ تاہم فوج ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔

آئندہ انتخابات کئی مہینوں کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد منعقد ہو رہے ہیں۔  تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے سیاست دان،میاں نوازشریف کو بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کیا گیا اور اب انہیں دس برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ نوازشریف نے جرنیلوں کی مخالفت مول لی تھی کیونکہ وہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری طرف عمران خان کوفوج کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک اہم اتحادی ہےَ۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے بھی پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ جرمنی نے پاکستان کے روایتی دشمن بھارت کو اسٹریٹیجک اتحادی کا درجہ دے دیا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب مارکس پوٹسل کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ "پاکستان اس قدر اہم ملک ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور افٰغانستان میں اسلام پسندوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس حمایت کا آغاز 1980 ء کی دہائی میں امریکا کے تعاون سے ہوا تھا۔ پاکستان پر ایک عرصے سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ ان دہشت گرد گروہوں کے بارے میں بہت نرم گوشہ رکھتا ہے جو افغانستان اور کشمیر میں اس کے عسکری مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔

پاکستان: انتہا پسندوں کی انتخابی مہموں میں تیزی

تاہم گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کے اُن نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے تھے یا پاکستانی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کو نشانہ بناتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے مالیاتی نیٹ ورک پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔

جنوری میں امریکا نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کی فوجی امداد بند کر رہا ہے۔ اس بندش کی وجہ بیان کرتے ہوئے واشنگٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرتا اور یہ دونوں گروہ پاکستان سے افغان سرزمین پر حملے کرتے ہیں۔ یہی تحفظات جرمن سفارت کاروں کے بھی ہیں۔ پوٹسل نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "جب تک پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو تحفظ فراہم کر رہا ہے، ہم اس دعوے پر یقین نہیں کر سکتے کہ وہ دہشت گردی مخالف جنگ میں واقعی پرعزم ہے۔"

2015 ء  میں پاکستان نے تمام بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن کا حکم دیا۔ جرمن وزارت برائے سماجی ترقی کے مطابق جرمنی کی چار این جی اوز اور چند سیاسی فاؤنڈیشنز کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہوئی۔ دیگر بین الاقو امی ڈونرز کی طرح، جرمنی بھی پس پردہ مذاکرات کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے آئندہ ششماہی مذاکرات میں جرمن حکام یہ سوال بھی اٹھائیں گے۔  

جرمنی کی جانب سے، جو پاکستان کو سب سے زیادہ امداد دینے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے، 39 ملین یورو کی امداد روک لی گئی ہے جو توانائی کے شعبہ کے لئے منظور کی گئی تھی۔ پاکستان کو جرمنی سے ملنے والی امداد، جو ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ میں ۸۹ ملین یورو تھی، پائیدار معاشی ترقی اور گڈ گورننس کے لیے تھی۔ جرمنی پاکستان کو مشینیں، کیمیکل ،الیکٹرانک مصنوعات اور گاڑیاں برامد کرتا ہے اور پاکستان سے ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات درامد کرتا ہے۔ جرمنی کے دفتر خارجہ کے مطابق، ۲۰۱۶ میں دو طرفہ تجارت کا حجم ۲۔۶ ارب یورو تھا۔

ہیومن رائٹس واچ سے منسلک پاکستانی وکیل، سروپ اعجاز کے مطابق، ’جرمنی پاکستان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرانس کے بعد، پاکستان کے مضبوط ترین دوطرفہ تعلقات جرمنی کے ساتھ ہیں۔ سروپ اعجاز کے خیال میں پاکستان میں جرمن سفارت خانے کو ہر ایسی بات  بہت ناپ تول کر کرنی پڑتی ہے جس میں پاکستانی حکومت یا اداروں پر تنقید کا پہلو نکلتا ہو۔ انکے مطابق، ’براہ راست تنقید مشکل ہے۔ اسکی بجائے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق اور سماجی حقوق سے متعلق انفرادی واقعات پر پس پردہ رہ کر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‘

برلن میں عام خیال یہی ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کے بعد پاکستان کے لیے جرمنی کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ خصوصی مندوب پوٹسل کے مطابق، ’ہم پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستانی بھی ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘