آئندہ جاپانی وزیر اعظم ہاتویاما کا پہلا پالیسی خطاب
31 اگست 2009انتخابی کامیابی کے بعد اپنی پہلی پالیسی تقریر میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کے سربراہ اور آئندہ وزیر اعظم ہاتویاما نے کہا کہ وہ جاپانی عوام اور ملکی معیشت کو درپیش مسائل کے حل کے لئے فوری طور پر کام شروع کردیں گے۔ خارجہ سیاسی حوالے سے ہاتویاما نے کہا کہ مشرقی ایشیا سمیت آج دنیا کو کئی طرح کے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ان کی رائے میں عہد حاضر کا اہم ترین تقاضا مکالمت اور ہم آہنگی کا فروغ ہے۔
ہاتویاما نے، جو ستمبر کے وسط تک جاپانی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیں گے، کہا کہ واشنگٹن میں صدر باراک اوباما کی قیادت میں نئی انتظامیہ ایک بڑی طاقت کے طور پر امریکہ کو مکالمت اور ہم آہنگی کے راستے پر آگے لانے کی جو کوششیں کر رہی ہے، وہ قابل تعریف ہیں۔
جس وقت ہاتویاما ٹوکیو میں یہ بیان دے رہے تھے، تقریبا اسی وقت واشنگٹن میں امریکی حکومت نے جاپانی عوام کو حالیہ پارلیمانی الیکشن کے تاریخی نتائج پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور جاپان دو ایسے اتحادی ملک ہیں، جن کے مابین بین الاقوامی سطح پر قریبی تعاون آئندہ بھی بھرپور انداز میں جاری رہے گا۔
جاپانی خارجہ سیاست ہی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ کا روس کے بارے میں یہ بیان بھی بہت اہم تھا کہ ٹوکیو ماسکو کے ساتھ جزائر کی ملکیت سے متعلق اپنا وہ جغرافیائی تنازعہ حل کرنے کے لئے بھی کام کرے گا، جو گزشتہ کئی عشروں سے حل نہیں ہو سکا ہے۔
جاپانی پارلیمان کے ایوان زیریں کے لئے اتوار کو ہونے والی رائے دہی میں عوام کو 480 ارکان کا انتخاب کرنا تھا۔ ان میں سے 62 سالہ ہاتویاما کی پارٹی DPJ کو ملنے والی سیٹوں کی تعداد 300 سے زائد بنتی ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں چند مہینوں کے سوا ہمیشہ ہی اقتدار میں رہنے والی اور حالیہ الیکشن میں تاریخی ناکامی کا سامنا کرنے والی موجودہ وزیر اعظم تارو آسو کی لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کو 120 کے قریب سیٹیں ملی ہیں۔ باقی ماندہ 50 سے زائد نو منتخب ارکان کا تعلق چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے ہے۔
غیر سرکاری انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم تارو آسو نے کل ہی اپنی جماعت کی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ہاتویاما نے اپنی جماعت کی شاندار کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا تھا: ’’میں اب تک کی صورتحال پر بہت خوش ہوں۔ میرے خیال میں تمام ووٹروں کو اب تک کی حکومت پر بہت زیادہ غصہ تھا۔ میں ان سب رائے دہندگان کا شکر گذار ہوں، جنہوں نے ہمیں ووٹ دئے۔ اگرچہ حکومت اب ہم بنائیں گے، لیکن ہمیں مغرور نہیں ہونا چاہیے، بلکہ لوگوں کی خدمت اور بھلائی کے لئے کام کرنا چاہیے۔‘‘
حکمران جماعت LDP کو ان انتخابات میں جو زبردست ناکامی ہوئی، اس کے فوری بعد وزیر اعظم تارو آسو تو پارٹی قیادت سے مستعفی ہو ہی گئے، لیکن پارٹی سیکریٹری جنرل ہیرو یُوکی ہوسودا نے بھی یہ اعتراف کیا کہ لبرل ڈیمو کریٹس کو مستقبل کی طرف بڑھنے کے لئے ماضی کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ’’میری جماعت کو انتہائی مشکل انتخابی نتائج کا سامنا ہے۔ ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا ہو گا کہ ہم نے غلطی کہاں کی۔ پھر ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا، تاکہ ہم آئندہ الیکشن کی تیاری کر سکیں۔ ہم آئندہ ترمیم شدہ سیاسی پالیسیوں کی مدد سے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
کئی سیاسی ماہرین کے بقول جاپان میں لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کی ناکامی اس سیاسی نظام کا خاتمہ ہے جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد رواج ملا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق