1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آؤشوِٹس کے اذیتی مرکز کی ڈریس میکر

15 ستمبر 2021

نازی دور کے بدنام زمانہ آؤشوِٹس حراستی کیمپ کی قیدی خواتین کے ٹیلرنگ اسٹوڈیو سے متعلق دلچسپ کہانیوں پر مشتمل مصنفہ ایڈلنگٹن کی کتاب کا عنوان ہے،’’ دا ڈریس میکرز آف آؤشوِٹس ‘۔ اس کا اجرا 28 ستمبر کو ہونے والا ہے۔

https://p.dw.com/p/40MCW
Buch zu NS-Lager Auschwitz
تصویر: Lucy Adlington

برطانوی مؤرخ اور ملبوسات کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والی لوسی ایڈلنگٹن اُس وقت سخت حیرت میں پڑ گئیں جب انہوں نے نازی دور کے بد نام زمانہ حراستی کیمپ آؤشوِٹس میں خواتین قیدیوں کے زیر انتظام ایک 'ٹیلرنگ اسٹوڈیو‘ یا خیاطی مرکز کے بارے میں ایک کتاب کا مطالعہ کیا۔ ان کے تجسس نے انہیں اس موضوع کے بارے میں مزید جاننے پر مجبور کیا۔ جیسے جیسے انہیں آؤشوِٹس کے کیمپ کے ٹیلرنگ اسٹوڈیو کے بارے میں معلومات ملتی گئیں ویسے ویسے انہیں اس حراستی کیمپ میں خواتین کی اپنی بقا کے لیے مزاحمت کی بے مثال کہانیاں ملتی گئیں جنہیں مصنفہ ایڈلنگٹن نے کتاب کی شکل میں محفوظ کر دیا۔ ان کی اس کتاب کا عنوان ہے،'' دا ڈریس میکرز آف آؤشوٹس‘ جس کا اجرا 28 ستمبر کو ہونے والا ہے۔

آؤشوٹس: ہٹلر دور کی خوفناک قتل گاہ

  'دی اپر ٹیلیرنگ اسٹوڈیو‘

1930ء اور 1940ء کے ابتدائی دور میں آؤشوِٹس کے حراستی کیمپ کے ایک نازی سپہ سالار کی بیوی کیمپ کے اندر ایک فیشن سلون چلاتی تھی ۔ اس میں کام کرنے والی تمام خواتین قیدی تھیں۔ اسے ' اُوبرے نیہ اشٹوبے‘ یعنی ' اپر ٹیلرنگ اسٹوڈیو یا بالائی خیاطی مرکز ‘ کہا جاتا تھا۔ اس جگہ نازی اشرفیہ کے لیے ملبوسات تیار کیے جاتے تھے۔ مؤرخ لوسی ایڈلنگٹن اسے ' گھناؤنی بےضابطگی‘ قرار دیتی ہیں جو اس حراستی کیمپ کے 1.3 ملین قیدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے متضاد ہے۔ ایڈلنگٹن کے مطابق نازیوں نے ہمیشہ لباس کی اہمیت اور طاقت کو سمجھا۔ یونیفارم سے لے کر اعلیٰ فیشن تک۔ ہٹلر کے پروپگینڈا وزیر جوزف گؤئبلز کی بیوی ماگڈا گؤئبلز یہودیوں کے تیار کردہ ملبوسات زیب تن کرنے میں کبھی نہیں ہچکچائی۔ ایڈلنگٹن آؤشوِٹس کے ٹیلرنگ اسٹوڈیو میں کام کرنے والی خواتین کی حالت زار پر شدید افسوس کرتے ہوئے کہتی ہیں،'' یہ کیسا تضاد ہے کہ آپ خود میلے کپڑوں میں ملبوس ہیں اور نازیوں کے پیرا ملٹری فورس ایس ایس میں شامل اہلکاروں کی بیویاں آکر آپ سے فرمائش کریں اور کہیں  ڈارلنگ میرے لیے نیا گاؤن بنا دو۔‘‘    

 

Buch zu NS-Lager Auschwitz
آؤشوِٹس کے حراستی کیمپ کے ایک نازی سپہ سالار کی بیوی کیمپ کے اندر ایک فیشن سلون چلاتی تھیتصویر: Juraj Minarik

ڈریس میکرز کی تلاش

تاریخ دان ایڈلنگٹن کے پاس ابتدائی طور پر خواتین درزیوں کے پہلے ناموں کی فہرست تھی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ ان خواتین کے اصل 'فرسٹ اور سیکنڈ ‘ یعنی مکمل ناموں کے ریکارڈ کی تلاش میں ہیں جو کہ ایک مشکل عمل ہے کیونکہ زیادہ تر خواتین اپنے وہ نام بتاتی تھیں، جن سے انہیں پکارا جاتا تھا یا شادی کے بعد انہوں نے اپنے نام تبدیل کر لیے تھے۔ چند یہودی خواتین نے جنگ کے بعد عبرانی نام اپنا لیے تھے۔

مسلمان ہولوکاسٹ کو کس نگاہ سے ديکھتے ہيں؟

برطانوی مصنفہ لوسی ایڈلنگٹن نے 2017 ء میں نوجوانوں یا بالغوں کے لیے ایک ناول 'دا ریڈ ربن‘ شائع کی تھی جو 2021 ء جولائی میں جرمن زبان میں ' ڈیئر روٹے بانڈ ڈیئر ہوفنُنگ‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب چار نوجوان خواتین کی کہانی پر مبنی ہے۔ روز، ایلا، مارٹا اینڈ کارلا۔ یہ چاروںآؤشوِٹس کے برکناؤ حراستی کیمپ کی ڈریس شاپ کے لیے خیاطی یا درزی کا کام کر کے اپنی جان بچا کر انتہائی مشکل حالات میں گزر بسر کرتی تھیں۔ لوسی ایڈلنگٹن کہتی ہیں،'' میرے پاس اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھی۔ میں نے صرف تصور کیا کہ ایک نوجوان خاتون کو جب اس حراستی کیمپ میں نازی پیرا ملٹری فورسز کے سپہ سالاروں کی بیویوں کے لیے لباس سینا پڑتے ہوں گے تو انہیں کیسا محسوس ہو تا ہوگا۔ جب یہ ناول شائع ہوئی تو لوگوں نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کیا اور کوئی کہتا کہ میری کتاب میں جن خواتین کا ذکر ہے وہ ان کی ماں، خالہ یا نانی دادیاں تھیں۔‘‘ مؤرخ ایڈلنگٹن کا کہنا ہے کہ انہیں بہت شدت سے یہ احساس ہوا کہ تاریخ دفنائی نہیں گئی۔ یہ لوگوں کی زندگی ہے۔

Europäischer Holocaust-Gedenktag für Sinti und Roma
برکناؤ میں قائم حراستی کیمپ آؤشوِٹستصویر: Andrea Grunau/DW

زیر زمین مزاحمت

ایڈلنگٹن کا کہنا ہے کہ بہت سے قیدیوں کے لیے ٹیلرنگ اسٹوڈیو میں جگہ حاصل کرنا اور اپنی افادیت ثابت کرنا ان کی بقا کے لیے بہت ضروری تھا۔ اس فیشن سلون کی سربراہ مارٹا نامی ایک خاتون تھیں جنہوں نے جان بوجھ کر اس سلون کو ایک پناہ گاہ بنایا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو بچانا چاہتی تھیں۔ ان خواتین کے پاس صاف ستھرے لباس تھے، ان کے پاس انہیں دھونے کی سہولت موجود تھی۔ ایڈلنگٹن کا کہنا ہے،'' جانوروں سے بھی بدتر سلوک سے بچنے، غلامی کی سی زندگی بسر کرنے  اور ایسے گیس چیمبرز کی تعمیر میں ہاتھ بٹانے، جہاں خود ان کی فیملی کو قتل کیا جائے اور اس شدید صدمے سے گزرنے سے کہیں بہتر یہ زندگی تھی جس میں وہ کسی خوبصورت چیز کی تخلیق کر سکتی تھیں۔ میرا خیال ہے یہ ان خواتین کی خود اعتمادی کے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔‘‘

آؤشوٹس کیمپ میں قید پولش لڑکی کی 'رنگین' تصویر نے ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کردیا

اس ٹیلرنگ اسٹوڈیو میں خواتین محض کپڑے سینے کا کام نہیں کرتی تھیں بلکہ انہیں کسی حد تک یہ مراعت حاصل تھی کہ وہ خفیہ طریقے سے کیمپ کے باہر کے لوگوں کیساتھ بات چیت کر سکتی تھیں اور ایک طریقے سے زیر زمین مزاحمتی تحریک جاری رکھے ہوئی تھیں۔ مصنفہ ایڈلنگٹن کے بقول،'' وہ ادویات اکٹھا کرتیں اور جو کچھ انہیں ملتا اُسے چرا لیتی تھیں اور تقسیم کیا کرتی تھیں اور میرے خیال سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے حوصلے بلند رکھے ہوئے تھے۔‘‘ ایڈلنگٹن کا مزید کہنا تھا،'' انہیں اخبارات تک رسائی حاصل تھی اور وہ خفیہ طور پر ریڈیو سُن سکتی تھیں اور اس طرح وہ یہ کہہ سکتی تھیں کہ اتحادیوں نے فرانس پر حملہ کر دیا، ڈی ڈے ہو چُکا۔ وغیرہ‘‘ مارٹا جو ان خواتین کی سربراہ تھیں، وہ بھی آؤشوِٹس سے فرار کی کوشش کر رہی تھیں تاکہ وہ باہر کی دنیا کو اس نازی کیمپ کے مظالم کی داستانیں سنا سکیں۔

Europäischer Holocaust-Gedenktag für Sinti und Roma
نازی دور میں ظلم و جبر کا شکار ہونے والے روما اور سنٹی برادریوں کی تصویرتصویر: Andrea Grunau/DW

محبت کی مزدوری

مصنفہ ایڈلنگٹن گرچہ اپنی کتاب کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی خواتین میں سے چند کے ساتھ بات چیت کر سکیں، جیسے کہ براخہ کوہوٹ اور دیگر خیاط خواتین اور ان کے گھر والوں کیساتھ لیکن ان خواتین کے بنائے ہوئے ملبوسات کے انہیں کوئی آثار نہیں ملے۔ وہ کہتی ہیں،'' میرے علم کے مطابق اس فیشن سلون میں تیار کیے جانے والا کوئی لباس نہیں بچ سکا۔ اس سلون سے ایک آرڈر بُک ملی جس کے بارے میں ایک گواہ کا کہنا ہے کہ اس میں برلن کے چوٹی کے نازیوں کے نام درج تھے۔ اس سے پتا چلا کہ برلن کے گاہک آؤشوِٹس فیشن سلون سے اپنے آرڈر کیا کرتے تھے۔ تاہم ان کے آرڈرز اب موجود نہیں ہیں۔‘‘

تین لاکھ یہودیوں کے قتل میں معاونت: نازی مجرم کی سزا برقرار

ایڈلنگٹن نےبتایا کہ ایک خاتون  ڈرس میکر جو آؤشوِٹس ازیت رسانی کیمپ کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بچ گئی تھیں، نے بعدا میں اپنی بھتیجی کے لیے ایک سلک کا سوٹ تیار کیا تھا۔ ایڈلنگٹن نے کہا،'' ان کی بھتیجی نے مجھے یہ سوٹ بھیجا۔ اس طرح میرے پاس اب ایک خیاط کا بنایا ہوا لباس موجود ہے جسے میں جب بھی دیکھتی ہوں، میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ خیال بہت خوبصورت ہے کہ اس خاتون درزی کو زندہ رہنےکے لیے اس کیمپ میں کیا کرنا پڑا۔ اس خاتون کا نام حنیا تھا۔‘‘ مصنفہ ایڈلنگٹن کہتی ہیں کہ ان خواتین کا کام بنیادی طور پر 'غلامی کی مزدوری تھا‘۔ مگر جو جوڑا انہوں نے اپنی بھتیجی کے لیے سیا تھا وہ محبت کیساتھ سلا ہوا لباس تھا۔

مناسی گوپالاکرشنن/ ک م/ ب ج