1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

کیا نوجوان جرمن ووٹر دائیں بازو کی سیاست میں پھنس سکتے ہیں؟

4 مارچ 2024

اس بار یورپی پارلیمان کے الیکشن میں سولہ برس کے جرمن ووٹر بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔ جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالف پارٹی اے ایف ڈی سوشل میڈٰیا کے ذریعے ان بچوں کو مؤثر انداز میں متوجہ کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4d9Q7
Niederlande Rotterdam 2023 | Mädchen schaut TikTok-Videos auf ihrem Smartphone
تصویر: Robin Utrecht/picture alliance

جیسے ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ جرمنی میں سولہ اور سترہ برس کی عمر کے بچے بھی اس سال یورپی پارلیمان کے ارکان کو منتخب کرنے کی خاطر ووٹ دے سکیں گے، متعدد سیاسی پارٹیوں نے اپنی الیکشن مہم کو ویڈیو شیئرنگ ڈیجیٹل پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر بھی شروع کر دیا۔

یورپی پارلیمان کے الیکشن کی خاطر حق رائے دہی استعمال کرنے کی کم سے کم عمر سولہ برس صرف جرمنی میں ہی نہیں ہے بلکہ بیلجیم، آسٹریا، یونان اور مالٹا کے نوجوان ووٹر بھی یورپی سیاست کے رخ کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

نوجوان جرمن ووٹروں کی تربیت کی خاطر ایجوکیٹرز اور مختلف ادارے متعدد اقسام کی ورکشاپس منعقد کر رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کیا جا سکے۔

بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اعتدال پسند سیاسی جماعت سوشل ڈٰیموکریٹک پارٹی سے وابستہ غیر سرکاری ادارے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن نے اس پیش رفت کو یوتھ کی 'تربیت‘ سے تعبیر کیا ہے۔

2024 کے یورپی انتخابات، دائیں بازو کی کامیابی کی پیش گوئی

جرمنی: انتہائی دائیں بازوں کی جماعت اے ایف ڈی کی میئر کے انتخاب میں پہلی کامیابی

مستقبل کے حوالے سے یہ ایک قابل فہم قدم قرار دیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت قرار دی جا رہی ہے کہ سولہ اور سترہ سال کے زیادہ تر نوجوان ووٹر اس بات سے لاعلم ہو سکتے ہیں کہ بیلٹ پیپر پر ان کا لگایا ہوا ایک چھوٹا سا کراس (X) ان کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اے ایف ڈی کی ٹک ٹاک پر جارحانہ مہم

عوامیت پسند سیاسی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی گزشتہ دس برسوں میں ملکی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے طور پر اپنی ایک باقاعدہ جگہ بنا چکی ہے۔ یہ پارٹی نہ صرف اسلام مخالف ہے بلکہ تارکین وطن یا مہاجرین کی جرمنی آمد کے بھی خلاف ہے۔

اپنے انہی نظریات کی ترویج اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اے ایف ڈی نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر انتہائی جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ اس مہم میں انتہائی فرسودہ اور قدامت پسندانہ خیالات کی تشہیر کرتے ہوئے یوتھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اگرچہ متعدد سیاسی پارٹٰیاں ٹک ٹاک اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر مہم چلا رہی ہیں لیکن چونکہ اے ایف ڈی جذبات سے کھیل رہی ہے، اس لیے بالخصوص ٹک ٹاک پر شیئر کی جانے والی اس کی انتخابی مہم کی ویڈیوز بہت زیادہ مرتبہ دیکھی جا رہی ہیں۔

رائٹ ونگ انتہا پسند اور یورپی پارلیمان کے لیے اے ایف ڈی کے ایک اہم امیدوار ماکسیمیلیان کراہ، خود کو ڈیٹنگ ایکسپرٹ بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو محبت اور سیکس کے بارے میں مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔

AFD Spitzenkandidat für die EU-Wahl Maximilian Krah
رائٹ ونگ انتہا پسند اور یورپی پارلیمان کے لیے اے ایف ڈی کے ایک اہم امیدوار ماکسیمیلیان کراہتصویر: MAX SLOVENCIK/picturedesk.com/APA/picture alliance

کراہ نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا، ''حقیقی مرد رائٹ ونگ ہوتے ہیں، حقیقی مرد تصورات رکھتے ہیں، حقیقی مرد محب وطن ہوتے ہیں، پھر ایک گرل فرینڈ ملتی ہے۔‘‘ ان کی یہ ویڈیو ٹک ٹاک پر ایک ملین سے بھی زائد مرتبہ دیکھی جا چکی ہے۔

اپنی ایک اور ویڈیو میں کراہ نے کہا کہ 'آپ کی ماں جب عمر رسیدہ ہو گی تو وہ غریب ہو چکی ہو گی‘ اور ایک ویڈیو میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ 'حکومت آپ سے نفرت کرتی ہے‘۔

عوامیت پسندی کا نعرہ اور جذبات سے کھلواڑ

ایسا لگتا ہے کہ کراہ نے جرمنوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ پولیٹیکل کنسلٹنٹ یوہانس ہِلیے کی طرف سے جرمن پبلک براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف  کو فراہم کردہ ایک تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اے ایف ڈی کے پارلیمانی دھڑے کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی ٹک ٹاک ویڈیوز دیگر جماعتوں کی طرف سے شائع کردہ ویڈیوز کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ناظرین تک پہنچ رہی ہیں۔

اے ایف ڈی کے مقامی نمائندوں اور دائیں بازو کے بااثر افراد سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹس بھی اسی طرح کا مواد پیش کر رہے ہیں، جو ٹک ٹاک پر بار بار دیکھا جا رہا ہے اور آگے شیئر بھی کیا جا رہا ہے۔

شعبہ درس و تدریس کے ماہر کلاؤس ہوریلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج کل کی نسل نے آن لائن ہی نشوونما پائی ہے اور یہ ٹولز ان کے لیے انتہائی اہم ہیں، ''یہ صرف ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے ہی معلومات تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے کمیونیکیٹ کرتے ہیں۔ انہی چینلز کے ذریعے یہ نسل سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتی ہے۔‘‘

جرمنی کے ٹین ایجر بچوں کے لیے خبروں کا اہم وسیلہ بھی ٹک ٹاک بن چکا ہے۔ کلاؤس ہوریلمان کے بقول جرمنی کی دیگر سیاسی پارٹیاں آن لائن توجہ حاصل کرنے میں کافی پیچھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس ریس میں اے ایف ڈی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔

کووڈ اور ماحولیاتی بحران بھی وجوہات ہیں

ماہر تعلیم کلاؤس ہوریلمان نے ڈٰی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اس بات پر حیرت نہیں کہ کٹر نظریات کی حامل سیاسی جماعت اے ایف ڈی نوجوانوں میں اتنی مقبول کیوں ہو رہی ہے۔ ان کے بقول نوجوان اور فرسٹ۔ٹائم ووٹر کچھ وجوہات کی بنا پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت کی مقبولیت پھر کم ہو جائے گی، چانسلر شولس کو یقین

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران ہونے والی اسکولوں کی بندش، لاک ڈاؤنز اور بیماری کے خوف نے بچوں اور یوتھ کو زیادہ متاثر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُس وقت کے بارہ یا تیرہ سال کی عمر کے بچوں میں یہ احساس پیدا ہوا تھا کہ ان کی زندگیاں مزید ان کے کنٹرول میں نہیں رہیں۔ یہی بچے اب یورپی پارلیمان کے الیکشن میں ووٹ دیں گے۔

کلاؤس ہوریلمان کے مطابق ان بچوں میں ماحولیاتی حوالے سے حساسیت بھی بہت زیادہ ہے اور یہ قابل رہائش جگہ کے کم ہو جانے اور  بڑھاپے میں غربت کے خوف میں بھی مبتلا ہیں۔ اس صورتحال میں کلاؤس ہوریلمان کہتے ہیں، ''اے ایف ڈی جیسی جماعت ان کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ حکومتیں اب تک ان کے خدشات کو دور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔‘‘

جرمنی کے کچھ صوبوں میں اٹھارہ تا چوبیس برس کی عمر کے ووٹروں میں اے ایف ڈی کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اس صورت حال میں اپنا حتمی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کلاؤس ہوریلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی پارلیمان کے آئندہ الیکشن میں اے ایف ڈی اچھی پوزیشن میں ہو گی۔ یہ الیکشن اس برس چھ تا نو جون کو ہونا طے ہیں۔

ع ب/ م م (اشٹیفانی ہؤپنر)

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔

کیا جرمنی میں تارکین وطن اور اسلام کے خلاف منفی جذبات بڑھ رہے ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں