1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانچ جرمن صوبے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے سے گریزاں

شمشیر حیدر
6 فروری 2017

افغانستان میں خراب سکیورٹی کے باعث پانچ جرمن وفاقی ریاستیں برلن، شلیسوِگ ہولسٹائن، لوئر سیکسنی، رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور بریمن افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے سے گریزاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2X2Zo
Afghanistan abgeschobene Flüchtlinge aus Deutschland kommen in Kabul an
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر جرمنی کی پانچ وفاقی ریاستیں وفاقی جرمن حکومت کے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہیں جس کے مطابق افغان مہاجرین کو ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ ان ریاستوں میں برلن، شلیسوِگ ہولسٹائن، لوئر سیکسنی، رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور بریمن شامل ہیں۔

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

لوئر سیکسنی کی وزارت داخلہ نے ’فُنکے میڈیا گروپ‘ کو بتایا، ’’افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال واضح نہیں ہے جس کے باعث ایسےافغان مہاجرین، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی وطن اس وقت تک نہیں بھیجا جائے گا جب تک افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال کے متعلق کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہوں گی۔‘‘ صوبائی وزارت داخلہ نے تاہم یہ واضح کیا کہ اس فیصلے کا اطلاق ایسے پناہ گزینوں پر نہیں ہو گیا جو جرمنی میں جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔

اسی طرح رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی صوبائی حکومت بھی صرف جرائم میں ملوث افغان مہاجرین کو ہی ملک بدر کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا، ’’افغان مہاجرین کو ملک بدر نہ کیے جانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے۔‘‘ عالمی ادارے کی رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان میں امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔

وفاقی جرمن ریاست بریمن نے بھی افغان تارکین وطن کی ملک بدری کا عمل روک رکھا ہے۔ ’فنکے میڈیا گروپ‘ سے کی گئی اپنی بات چیت میں صوبائی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ’’افغان مہاجرین کو بریمن سے ملک بدر کر کے واپس ان کے وطن نہیں بھیجا جا رہا۔ سیاسی پناہ کی انفرادی درخواستوں کے جائزے کے دوران افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری میں مختلف وجوہات کی بنا پر رکاوٹ پیش آ رہی ہے ان میں سے ایک وجہ افغانستان میں امن و امان کی ناقص صورت حال بھی ہے۔‘‘

گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں جرمنی اور افغانستان کی حکومتوں نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے بارے میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے ایسے افغان شہریوں کی اجتماعی وطن واپسی کا عمل شروع کر دیا تھا جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر