1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

شمشیر حیدر
15 جنوری 2017

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ برس کے آغاز سے نومبر کے ماہ تک پانچ لاکھ سے زائد تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں لیکن محض باون ہزار پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2VpDj
Abschiebung abgelehnter Asylbewerber nach Afghanistan
تصویر: Reuters/R. Orlowski

گزشتہ دو برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کے لیے سیاسی پناہ کی اتنی زیادہ درخواستوں پر فیصلے کرنا آسان نہیں تھا۔ تاہم 2016ء میں بی اے ایم ایف نے قریب سات لاکھ درخواستیں نمٹائیں۔ جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ان میں سے پانچ لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں لیکن صرف باون ہزار کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان تارکین وطن کے آبائی ملکوں کی جانب بھیجا جا سکا۔

یورپ آنے والے سبھی مہاجرین کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ

مہاجرین کو ملک بدر نہ کیے جا سکنے کی کئی وجوہات ہیں۔ کئی مہاجرین کو خرابیٴ صحت کی بناء پر جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت دے دی جاتی ہے اور کئی تارکین وطن ایسے بھی ہیں، جنہیں ان کے آبائی وطن واپس قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

لیکن جرمن حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پناہ گزینوں کی ملک بدری اس لیے ممکن نہیں ہو پاتی کیوں کہ ان کے پاس شناختی اور سفری دستاویزات نہیں ہوتیں۔ تارکین وطن کی شناخت اور بعد ازاں ان کے آبائی وطنوں کے تعاون سے پاسپورٹ یا عارضی سفری دستاویزات کی تیاری نے جرمن حکام کے لیے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔

دوسرے ممالک کے ساتھ پناہ گزینوں کی واپسی کے معاہدے طے پانے کے باجود جرمنی کو کیسی مشکلات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ الجزائر، مراکش اور تیونس جیسے شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں دشواری سے لگایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس سالِ نو کی تقریبات کے دوران کولون میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں زیادہ تر ملزموں کا تعلق انہی شمالی افریقی ممالک سے تھا۔ برلن کی کرسمس مارکیٹ میں ٹرک کے ذریعے حملہ کرنے والے انیس عامری کا تعلق بھی تیونس سے تھا۔ ان واقعات کے بعد جرمن حکومت پر شدید دباؤ تھا کہ  شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے تارکین وطن کو جلد از جلد ملک بدر کیا جائے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔

جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے پچھلے سال ان ممالک کے ساتھ تارکین وطن کی واپسی کے بارے میں معاہدے بھی کیے تھے۔ ان معاہدوں کے مطابق تیونس، الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے آٹھ ہزار سے زائد پناہ گزینوں کی ملک بدری عمل میں لائی جانا تھی۔ تاہم سال کے آخر تک صرف 368 افراد کو ہی ملک بدر کیا جا سکا۔ مراکش کی وزارت داخلہ سے وابستہ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جرمنی میں پناہ کے متلاشی مراکشی شہری اپنے پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات ضائع کر دیتے ہیں اور خود کو شامی شہری ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کی شناخت کرنا اور ان کی سفری دستاویزات تیار کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔

تاہم مہاجرت کے موضوع پر تحقیق کرنے والے مارٹن سیلِنگر کا کہنا ہے کہ شمالی افریقی ممالک کے حکام اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں 

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے