1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیان: امریکا اور چین کی توجہ کا مرکز

R. Ebbighausen / امجد علی14 نومبر 2014

پہلے چینی دارالحکومت بیجنگ میں ایپک سربراہ کانفرنس سجی، پھر اس سارے سفارتی قافلے نے میانمار میں پڑاؤ کیا۔ بڑے اور با اثر سربراہان مملکت و حکومت نے آسیان کو مختلف پیشکشوں کے ذریعے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔

https://p.dw.com/p/1DmqM
تیرہ نومبر کو میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں آسیان سربراہ اجلاس کے دوسرے روز علاقائی ملبوسات پہنے خواتین مہمانوں کا استقبال کر رہی ہیں
تیرہ نومبر کو میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں آسیان سربراہ اجلاس کے دوسرے روز علاقائی ملبوسات پہنے خواتین مہمانوں کا استقبال کر رہی ہیںتصویر: Getty Images

بارہ اور تیرہ نومبر کو میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کی پچیس ویں سربراہ کانفرنس کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس EAS بھی منعقد ہوئی۔ ان اجتماعات کے موضوعات کا دائرہ بحیرہٴ جنوبی چین میں ملکیت کے تنازعات اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے لے کر ایبولا کی وباء اور آسیان کو ایک اقتصادی برادری (AEC) میں بدلنے تک پھیلا ہوا تھا۔ آسیان کے دَس رکن ممالک کے ساتھ بات چیت کے لیے دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، امریکی صدر باراک اوباما، چینی وزیر اعظیم لی کیچیانگ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی وزیر اعظم دیمتری میدویدیف بھی میانمار میں موجود تھے۔

میانمار کے صدر تھین سین چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کا استقبال کرتے ہوئے
میانمار کے صدر تھین سین چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کا استقبال کرتے ہوئےتصویر: Reuters/Soe Zeya Tun

آخر جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کے اس اجتماع میں اتنے بڑے بڑے رہنماؤں کی بیک وقت موجودگی کی وجہ کیا تھی؟ اس سوال کے جواب میں برلن میں قائم فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ پالیٹکس سے وابستہ فیلکس ہائیڈُوک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’آج کل جنوب مشرقی ایشیا کی توجہ حاصل کرنے کے معاملے میں چین اور امریکا ایک دوسرے کے حریف ہیں اور اسی مقابلہ بازی کی وجہ سے اس تنظیم کے اجتماع میں اتنی زیادہ دلچسپی لی جا رہی ہے‘۔ چنانچہ ایک طرف امریکی صدر اوباما نے ان ملکوں کو اقتصادی، فوجی اور سماجی شعبوں میں تعاون کی پیشکش کی تو دوسری جانب چینی وزیر اعظم لی نے اس تنظیم کو دوستی کے باضابطہ معاہدے کی پیشکش کی۔ تاہم جرمن ماہر ہائیڈوک کا کہنا تھا کہ آسیان بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کی بجائے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہے اور ابھی تک اُسے اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔

امریکا اور چین میں جاری مقابلہ بازی کے سامنے ثابت قدم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آسیان کے تمام دَس رکن ممالک متحد ہوں اور اُس سب کا ایک ہی موقف ہو۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس تنظیم میں سنگا پور اور برونائی جیسے امیر ملکوں کے ساتھ ساتھ لاؤس اور میانمار جیسے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا، مسیحی اکثریت کا حامل ملک فلپائن اور بدھ مذہب کو ماننے والا تھائی لینڈ بھی اس تنظیم کا حصہ ہیں۔ پھر جہاں انڈونشیا میں جمہوریت رائج ہے، وہاں ویت نام میں ایک پارٹی کی مطلق العنان حکومت قائم ہے۔

تیرہ نومبر کو آسیان سمٹ کے دوسرے روز امریکی صدر باراک اوباما آسیان کے لیے امریکی سفیر نینا ہیشیگین سے بات چیت کر رہے ہیں
تیرہ نومبر کو آسیان سمٹ کے دوسرے روز امریکی صدر باراک اوباما آسیان کے لیے امریکی سفیر نینا ہیشیگین سے بات چیت کر رہے ہیںتصویر: Getty Images

آسیان کے اتحاد میں دراڑیں 2012ء سے نظر آنا شروع ہوئیں، جب کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پنہ میں آسیان کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اس تنظیم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی اختتامی اعلامیے کے بغیر اختتام پذیر ہو گیا۔ میزبان کمبوڈیا نے غالباً اپنے اہم ترین ساتھی ملک چین کی خواہش پر ہر ایسی مشترکہ کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا، جس کا تعلق بحیرہٴ جنوبی چین کے تنازعے کو مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ بنانے سے تھا۔ اس کے برعکس ویت نام، فلپائن، ملائیشیا ا ور برونائی ہر صورت میں اس تنازعے سے متعلق ایک پیراگراف کو اعلامیے کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ جرمن ماہر ہائیڈوک کے مطابق ’2012ء نے اس امر کی نشاندہی کر دی کہ آسیان کے اندر ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے‘۔

اگرچہ 2012ء کے بعد سے اس طرح کا کوئی بڑا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے لیکن اُن تین شعبوں یعنی سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں پیشرفت کی رفتار ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے، جو آسیان کے قیام کے وقت اس تنظیم کے پیشِ نظر تھے۔ جرمن ماہر ہائیڈوک کے خیال میں ’جہاں اقتصادی شعبے میں کافی زیادہ پیشرفت ہوئی ہے، وہاں سیاسی شعبے میں صورتِ حال ملی جلی ہے جبکہ سماجی شعبے میں پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

جنوب مشرقی ایشیا میں سرگرم امریکی کمپنیوں کے خیال میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ آسیان کی اقتصادی برادری AEC مقررہ مدت یعنی 2015ء کے اواخر تک حقیقت کا روپ دھار سکے گی۔ امریکی ایوان تجارت کی ’آسیان بزنس آؤٹ لُک‘ برائے 2015ء میں صرف چار فیصد امریکی کمپنیوں نے آئندہ برس کے آخر تک اے ای سی کے وجود میں آ جانے کا امکان ظاہر کیا، پچاس فیصد سے زیادہ کا خیال یہ تھا کہ ایسا بہت جلد بھی ہوا تو کہیں 2020ء تک ممکن ہو سکے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید