یورپی وفد کارل بلٹ کے بغیر سری لنکا کے دورے پر
29 اپریل 2009اس پیش رفت کے بعد شمالی سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف جاری ملکی فوج کے آپریشن کے باعث کولمبو اور یورپی یونین کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
سری لنکا کی حکومت نے سویڈن کے وزیرخارجہ کارل بلٹ کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد انٹرنیٹ کے ذریعے سویڈش وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں ہے کہ کولمبو حکومت نے آخر یہ انکارکیوں کیا۔
کارل بلٹ برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور اپنے فرانسیسی ہم منصب بیرنارڈ کوشنر کے ہمراہ سری لنکا جانے والے تھے۔ ان کے اس دورے کا مقصد بحران زدہ سری لنکا میں مصالحت کی کوششیں کرنا بتایا گیا تھا۔ یورپی یونین سری لنکا میں فریقین سے فوری طور پرجنگ بندی کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے تا کہ بحران زدہ علاقے میں پھنسے ہوئے عام شہریوں کو بروقت امداد فراہم کی جا سکے۔ لندن میں برطانوی دفتر خارجہ نے ان رپورٹوں کی تصدیق کردی ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور فرانسیسی وزیر خارجہ کوشنر سری لنکا کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے گذشتہ ہفتے جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق سری لنکا کی فوج کی طرف سے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام LTTE نامی مسلح باغی تنظیم کے خلاف رواں سال کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ساڑھے چھہ ہزار شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ 14ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سری لنکا میں فوج اور تامل باغیوں کے مابین خونریز جھڑپوں کے نتیجے میں ابھی بھی تقریبا 50 ہزار شہری جنگ زدہ علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
تاہم سری لنکا کے صدر مہیندا راجاپاکشے تامل باغیوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں پیدا شدہ موجودہ صورت حال کو بحران قرار دینے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ ’’میں اس کو بحران نہیں کہوں گا۔ ہاں یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ہم اس کو پایہ ء تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔‘‘
مہیندا راجاپاکشے مزید کہتے ہیں کہ اصل بحران تامل باغیوں کے خلاف ’کامیاب‘ آپریشن کے بعد بحران زدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کا کام ہوگا۔ سری لنکا کے صدر نے بین الاقوامی برادری سے ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ’’ اصل بحران جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کا کام ہوگا، خاص کر موجودہ مالیاتی بحران کے تناظر میں ایسی چیزیں معنی رکھتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی برادری کو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ اگر وہ سری لنکا کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے مخلص ہے تو ہم اس کا اپنے ملک میں خیر مقدم کریں گے۔‘‘
یورپی یونین، امریکہ اور بھارت سمیت کئی دیگر ملکوں کی طرف سے سری لنکا حکومت پر تامل باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لئے زبردست دباوٴ ڈالا جارہا ہے تاہم کولمبو حکومت ابھی تک جنگ بندی اور باغیوں کے خلاف اپنا آپریشن ختم کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔