1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولیورپ

یورپی ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر تین مقدموں کا سامنا

26 مارچ 2023

متعدد افراد نے ایک یورپی عدالت میں 30 سے زائد یورپی ممالک کے خلاف تین مقدمے دائر کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق غیر موثر اقدامات کی وجہ سے ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے.

https://p.dw.com/p/4PBuy
Großbritannien | LNG-Gasterminal
تصویر: K. Fitzmaurice-Brown/blickwinkel/picture alliance

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر کئی افراد نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں 30 سے زائد یورپی ممالک کے خلاف تین کیس دائر کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ممالک ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے موزوں اقدام کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

فرانس میں واقع یورپی عدالت برائے انسانی حقوق پہلی بار اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کر رہی ہے اور ان کے نتیجے میں متعلقہ ممالک کے لیے یہ احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی سے متعلق اپنے اہداف مقرر کردہ وقت سے پہلے حاصل کریں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے جرمنی کا ممکنہ نقصان نو سو ارب یورو تک

سوئس خواتین کا کیس

ان تین مقدمات میں سے پہلے کی سماعت اگلے ہفتے بدھ کو ہو گی۔ یہ کیس سوئٹذرلینڈ کی ہزاروں بزرگ خواتین نے وہاں کی حکومت کے خلاف دائر کیا ہے اور اس کی توجہ کا مرکز ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والی گرمی کی لہریں ہیں۔

ان خواتین کا موقف ہے کہ سوئس حکومت کے ضر رساں گیسوں کے اخراج کو روکنے کے اقدامات گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے ہدف سے مطابقت نہیں رکھتے اور اس طرح سوئس حکومت نے ان کے زندہ رہنے کے حق سمیت دیگر حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کا بھی حوالہ دیا ہے، جس کے مطابق گرمی کی لہر کے باعث خواتین اور بزرگ افراد کی اموات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں خواتین کے لیے زیادہ تباہ کن کیوں؟

دامیاں کاریم کا کیس

اگلے ہفتے بدھ کو ہی عدالت فرینچ گرین پارٹی سے وابستہ یورپی پارلیمان کے رکن دامیاں کاریم کا کیس بھی سنے گی۔ انہوں نے فرانسیسی حکومت کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مزید پرعزم اقدامات کرنے سے انکار کو چیلنج کیا ہے۔

دامیاں کاریم نے یہ درخواست 2019ء میں دائر کی تھی اور کی سماعت کے دوران اس بات پر غور کیا جائے گا کہ کیا حکومتوں کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق موزوں اقدامات نہ کرنے سے شہریوں کے گھروں کی تباہی کا خطرہ اور نتیجتاﹰ ان کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

اس کیس میں فرینچ کونسل آف اسٹیٹ پہلے ہی حکومت کو ضر رساں گیسوں کے اخراج کو 1990ء کی سطح سے 2030ء تک چالیس فیصد تک کم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔

اس کیس میں کاریم نے اب عدالت سے درخواست کی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا فرانسیسی حکومت کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مزید اقدامات نہ کرنے سے ان کے نجی اور خاندانی زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ لوگ آخر کریں کیا؟

پرتگال کے نوجوانوں کا کیس

اس نوعیت کے تیسرے مقدمے کی سماعت گرمیوں کے بعد ہو گی۔

اس کیس میں درخواست گزار پرتگال کے چھ نوجوان ہیں، جنہوں نے مقدمے میں یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے علاوہ برطانیہ، ناروے، روس، سوئٹذرلینڈ، ترکی اور یوکرین کو بھی نامزد کیا ہے۔

ان کا بھی یہی موقف ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں نے ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ ان ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے زیادہ پرعزم اقدامات کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔

ان کا یہ بھی موقف ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتائج سے ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی نوجوانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مترادف ہو گی کیونکہ وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

اس کیس میں نامزد ممالک عدالت کو اس کی جلد سماعت سے روکنے کی کوشش کر چکے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی بحرانوں میں اضافے کا باعث

ان تینوں کیسز کی سماعت کے دوران ایسا پہلی بار ہو گا کہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق اس بات پر غور کرے گی کہ آیا ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسیاں اتنی کمزور ہو سکتی ہیں کہ 'یورپی کنوینشن‘ میں درج انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بنیں۔

دوسری جانب ان مقدمات میں نامزد کچھ ممالک کا موقف یہ بھی ہے کہ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق ان مقدمات کو نہیں سن سکتی۔ بالخصوص سوئٹذرلینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس عدالت کا کام ماحولیاتی معاملات اور اس سے متعلق معاہدوں کے نفاذ میں سپریم کورٹ کا کردار ادا کرنا نہیں ہے۔

م ا / ش ح (روئٹرز)