1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

کیا واقعی ایسے بچے کند ذہن ہوتے ہیں؟

31 جولائی 2023

اکثر اسکولوں میں پچھلی نشستوں پر ڈرے سہمے بچوں کو اساتذہ اور دیگر طالب علم تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بیک بینچر کاہل، ڈمب، کام چور اور کند ذہن کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ کیا واقعی یہ بچے کند ذہن ہوتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/4UbZe
صنوبر ںاظر، بلاگر
صنوبر ںاظر، بلاگرتصویر: privat

آج سے لگ بھگ کوئی پچیس سال قبل ہمارے ایک دیرینہ دوست کی بیٹی کراچی کے ایک اعلی اسکول میں خراب کارکردگی کی بنا پر سالہاسال سے فیل ہوتی آ رہی تھی، جس پر اسے اسکول سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے ہم سے کیا، تب زندگی میں پہلی بار میں نے’’ڈسلیکسیا‘‘ کا نام سنا۔

اس کے کوئی چار سال بعد بیرون ملک رہائش کے دوران میں نے ڈس لیکسیا، اوٹزم اور ایپی لیپسیا کے شارٹ کورسزکیے، جس کے بعد چند سال وہیں ''لرننگ ڈس ایبیلٹی‘‘ کا شکار کئی بچوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

اسی دوران میری تیسری بیٹی نے کنڈرگارٹن جانا شروع کیا تو ایک ہفتے بعد ہی مجھے اسکول کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں مجھے بچی کے معمولی ’’ڈس لیکسیا کی ذیلی قسم ڈس کیل کیولیا‘‘(Dyscalculia) ہونےکی اطلاع دی گئی۔ اس میں بچے ریاضی کے ہندسوں کو پہچاننے کی صلاحیت میں دشواری محسوس کرتے ہیں اوراکثر الٹ لکھتے ہیں۔

مجھے زیادہ حیرت اور پریشانی اس لئے بھی نہیں ہوئی کہ مجھے ڈس لیکسیا کے بارے میں کافی جان کاری تھی۔ چونکہ میں خود پوری زندگی ریاضی کے مضمون کے ساتھ جنگ کرتی چلی آئی تھی اور آج بھی حساب میرا سب سے کمزور پہلو ہے۔

تب مجھے اندازہ ہوا کہ میری بیٹی نے بولنا دیر سے کیوں شروع کیا۔ اس کے تین سال کی عمر تک نہ بولنے کی وجہ سے  میں اسے روزانہ باآواز بلند کہانیاں سنایا کرتی تھی اور ٹی وی کارٹون میں ادا کیے جانے والے مکالمے اس کے ساتھ ساتھ دہراتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے پڑھنے اور لکھنے میں کبھی دشواری نہیں ہوئی۔

 میری بیٹی کو بیرون ملک اپنے ابتدائی اسکول کے سالوں میں خاص مسائل کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ دوسرا وہاں ایسی مختلف ڈس ایبلیٹی سے نمٹنے کے لئے اساتذہ ماہرانہ تربیت کی حامل ہوتی ہیں، جو ایسے بچوں کو خاص طریقہ کار اورتوجہ سے پڑھاتی ہیں۔

مسئلہ تو تب شروع ہوا، جب پاکستان آنے کے بعد بچی نے اسکول جانا شروع کیا۔ یہ سن 2008  کی بات ہے۔

آئے دن مجھے ٹیچرز کو جا کر سمجھانا پڑتا تھا کہ صرف شروع کے سال اگر ان بچوں کو کام کرنے یا امتحانات میں مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ زائد دے دیں تو ایسے بچے بہت جلد دیگر بچوں کو مات دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

 لیکن میرا سمجھانا سب بے سود رہتا۔ تین سال مجھے ہر تین ماہ کے سیمسٹر  کے شروع میں ہر ٹیچر کو الف سے یے تک ڈس لیکسیا کے بارے میں بتانا پڑتا اور وہ منہ کھولے مجھے اس طرح دیکھتیں، جیسے میں کوہ قاف کی کوئی کہانی سنا رہی ہوں۔

آج بھی افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ بڑے اور مہنگے اسکولوں تک کے اساتذہ اس بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں رکھتے تو چھوٹے اور سرکاری اسکولوں کی کیا بات کی جائے؟

چونکہ مجھے اندازہ تھا کہ اگر اس وقت میری بیٹی کو لمبے اور مشکل الفاظ آواز کے اتار چڑھاؤ اور ہجے کر کے پڑھایا جائے، ریاضی  پر خصوصی توجہ دی جائے تو یہ معمولی ڈس لیکسیا ایک دو سال میں ہی ہوا ہو جائے گا۔

میں نے ایک نوجوان لڑکی ٹیوٹر کا بھی بندوبست کیا اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ کس طرح پڑھانا ہے، سمجھانا ہے اور پھر جواب لکھنے کے لئے بچی کو کتنا وقت دینا ہے۔ صرف چند سال کی محنت میں ہی میری بیٹیا سکول کی ہونہار طالبہ بن گئی۔

ہم سب نے اپنے اسکول کے زمانے میں یہ مشاہدہ ضرور کیا ہو گا کہ کلاس کے چند بچوں کو کاہل، سست، کام چور کہہ کر ہمارے اساتذہ پچھلی نشستوں تک محدود کر دیتے تھے۔ ایسے بچوں کو کبھی ہوم ورک مکمل نہ کرنے پر تو کبھی سست رفتاری سے کلاس ورک کرنے  یا غلط جواب دینے پر سزائیں دینا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہوا کرتی تھی۔

اکثر استاد بلیک / وائٹ بورڈ پر تحریر لکھ کر مٹاتے تو ایسے بچے کہتے رہ جاتے ''ٹیچر پلیز ابھی میں لکھ رہا/ رہی ہوں‘‘۔ اور پھر دوسرے ہی لمحے یا تو ایسے بچوں کو کلاس بدر کیا جاتا ہے یا کرسی کے اوپر ہی کان پکڑ کر کھڑا ہونے کی سزا سنا دی جاتی۔

دوسرے کلاس فیلوز کا ایسے بچوں کا کھلے عام مذاق اڑانا ایک قسم کی تفریح ہوا کرتی تھی۔ ایسا اب بھی یقیناً اسکولوں میں ہوتا ہو گا۔

یہ پیچھے بیٹھنے والے، کم گو، ڈرے سہمے اور سست رفتار بچے ہرگز نکمے نہیں ہوتے بلکہ یہ ڈس لیکسک بچے کہلاتے ہیں۔

آخر یہ ڈس لیکسیا ہے کیا، اس کی کتنی قسمیں ہیں، کیوں ہوتا ہے اور کیا یہ قابل علاج ہے؟ 

ہمارے دماغ کا وہ حصہ جو پڑھنے، لکھنے اور دیکھنے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے وہاں کچھ اونچ نیچ ڈسلیکسیا کا سبب بنتی ہے۔ اسی لئے اسے Learning disability کہا جاتا ہے۔ دنیا کی تقریباً بیس سے بائیس فیصد آبادی ڈس لیکسیا کا شکار ہے۔ اکثر یہ موروثی ہوتا ہے اور کبھی حالات کا پیش خیمہ بھی۔

اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو اس کی چار قسمیں ہیں۔

  •  سر فیس ڈس لیکسیا (surface dyslexic): ایسے الفاظ سمجھنے میں دشواری کا سامنا جو لکھے مختلف اور پڑھے الگ جاتے ہیں مثلاً  Yacht , Debt۔
  •  فونو لوجیکل ڈس لیکسیا (phonological dyslexia): یہ قسم دماغ کو کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے نقصان پہنچنے کی صورت میں رونما ہوتی ہے۔ اس میں پڑھنے کی صلاحیت پر ضرب پڑتی ہے۔
  •  ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ ( Rapid naming deficit): اس میں بچے ہندسوں، لفظوں یا رنگوں کے نام جاننے کے باوجود اسے یاد رکھنے اور زبانی ادائیگی میں دقّت کا سامنا کرتے ہیں۔
  • ڈبل ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ (double rapid naming deficit ):  یہ ڈس لیکسیا کی سب سے مشکل اور شدید قسم ہے، جس میں افراد فونولوجیکل اور ریپڈ نیمنگ ڈیفیسٹ کا بیک وقت شکار ہوتے ہیں۔ پڑھنے وقت الفاظ گم یا بے ترتیب ہو جاتے ہیں وہیں ادائیگی کرتے وقت الفاظ کی ادائیگی بھی درست نہیں ہو پاتی ہے۔

جبکہ ڈس لیکسیا کی تین ذیلی قسمیں ہیں جنہیں مختلف نام دیے گئے ہیں۔

 Reading (dyslexia)  ریڈنگ، ڈس لیکسیا

Writing (dysgraphia).رائٹنگ، ڈس گرافیا

Math (dyscalculia) ریاضی، ڈس کیل کیولیا

ڈس لیکسک بچے کسی بھی طرح کم ذہین یا ذہانت سے محروم نہیں ہوتے بلکہ اگر انہیں نصابی علوم توجہ اور خاص طریقہ کار سے پڑھائیں جائیں تو وہ نا صرف نصابی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے آگے رہتے ہیں۔ اس لئے اس فرسودہ سوچ کو ذہن سے نکال دیجیے کہ ڈس لیکسک کا ذہانت سے کوئی لینا دینا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ جو بچے ریڈنگ اور رائٹنگ میں پیچیدگیاں محسوس کرتے ہیں وہ ریاضی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جن کے لئے ریاضی سمجھنا ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، ان کے لئے پڑھنا، سمجھنا، لکھنا اور  بولنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

لیکن ایسے بچوں کو اس نہج پر پہچانے کے لئے والدین اور اساتذہ کا ماہرانہ اور ہمدردانہ رویوں کا اظہار لازمی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کس طرح جانچا جائے کہ بچہ ڈس لیکسک ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ یہ لرننگ ڈس ایبیلٹی پیدائش سے ہی بچے میں موجود ہوتی ہے لیکن اس کا ادراک چار سے پانچ سال کی عمر میں ہوتا ہے، جب بچہ کنڈر گارٹن جانا شروع کرتے ہیں۔

 ابتدائی علامت بچے کا الفاظ کو الٹا لکھنا ہوتا ہے۔ مثلاً ع ، س، ج -5, 3, 7, 2 یا B, D, C وغیرہ کو یا تو الٹا لکھتےہیں یا کچھ لفظوں کو ایک دوسرے سے غلط ملط کر دیتے ہیں۔

ڈس لیکسک بچوں کو لکھنے، پڑھنے میں عام بچوں کی نسبت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

سمجھنے کے لئے بار بار پڑھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

لکھے ہوئے الفاظ گڈ مڈ ہوتے نظر آتے ہیں اور سنتے ہوئے کئی الفاظ سمجھ نہیں آتے، جس کی بنا پر یکسوئی برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

ہجے اکثر غلط کرتے ہیں۔

یہ ساری علامات ظاہر کرتی ہیں کہ بچہ یا بچی ڈس لیکسیا کا شکار ہے لیکن اس کا سدباب اور علاج ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جس میں آپ کا صبر، محبت بھرا سلوک اور بھرپور توجہ ہی بچے کو اس ڈس ایبیلٹی سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔

کیوں کہ ایسے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ، طعنے تشنے اور مار پیٹ ایک شدید نفسیاتی الجھن کا شکار کر سکتے ہیں اور زندگی بھر ان میں اعتماد کا فقدان اور دنیا کا سامنا کرنے پر خوف مسلط ہو سکتا ہے۔

ایسے بچوں کے والدین اگر جانچ لیتے ہیں کہ بچے میں تین میں سے کون سی لرننگ ڈس ایبیلٹی ہے تو انہیں اس کے پیش نظر وہی مضامین پڑھانے چاہیے، جس میں ان کی دلچسپی اور سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہو۔

دوسری جانب ڈس لیکسیا سے متاثرہ بچوں کے لئے خاص  تعلیمی اداروں  کا قیام ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تمام اسکول جو فیس کی مد میں کروڑوں کماتے ہیں، اپنی اساتذہ اور انتظامیہ کو اس کی مکمل ٹریننگ دیں تاکہ ایسے بچے اسکولوں میں ہتک آمیز رویوں سے محفوظ رہ سکیں۔

ڈس لیکسیا کے بارے میں ریسرچ بتاتی ہیں کہ اگر بروقت تشخیص ہو جائے اور مخصوص طریقہ کار اپنا کر تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جائیں تو جوانی میں یہ جڑ سے ختم ہو سکتا ہے۔

اس کی مثال میرے اپنی بیٹی ہے، جو نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمیشہ آگے آگے رہی۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ چار سال کا پیانو بجانے اور موسیقی کی زبان سیکھنے کا سرٹیفکیٹ لیا۔ اپنی بیٹی کا مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنا، موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنا اور کسی بھی فورم پر فی البدیہہ گفتگو کرتے دیکھ کر ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کبھی اس بچی نے ایک مشکل وقت بھی دیکھا ہے۔

جب تک والدین خود اپنے بچوں میں لرننگ ڈس ایبیلٹی کی تشخیص نہیں کر سکتے اور اس مشکل گھڑی میں معاون نہیں ہو سکتے تو پھر آپ اسکول انتظامیہ، اساتذہ اور سماج سے بھی نہیں لڑ سکتے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Sanober Nazir
صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔