1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرکٹرز کی تنخواہیں بند، بھرتیوں کی بھرمار۔ پاکستان کرکٹ کا حال، بے حال

Tariq Saeed15 اپریل 2013

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی نے بتایا کہ چار ماہ سے کسی کھلاڑی کو میچ فیس کے علاوہ سینٹرل کنٹریکٹ کے تحت ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی اور گزشتہ ایک برس سے کھلاڑیوں کولوگو منی سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/18GH2
تصویر: DW

پاکستان کرکٹ بورڈ کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ انہی کرکٹرز کے نام پر کمائے گئےکروڑوں روپے حال ہی میں پاکستان سپر لیگ کے ناکام منصوبے اور خواتین کے ایک سیاسی ٹورنامنٹ پر وار دیے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی ایک مشروب ساز ادارے کے ساتھ معاہدے کے مطابق نیشنل کرکٹرز کو سال دو ہزار بارہ کی لوگو منی جس کے تحت ہر کھلاڑی کو کم ازکم تیس لاکھ روپے ملنا ہیں تاحال جاری نہیں کر سکا۔

دنیا کے تمام کرکٹ بورڈز آئی سی سی کے ٹورنامنٹس میں شرکت پر آئی سی سی کی جانب سے ملنے والی اپیرنس منی سے پندرہ فیصد اپنے کھلاڑیوں کو دیتے ہیں مگر پی سی برسوں سے یہ رقم بھی پوری کی پوری خود ہڑپ کررہا ہے۔ اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم کے مصداق پاکستان کرکٹ بورڈ دو ایسے غیر ملکی کوچز کو ماہانہ تیئس ہزار امریکی ڈالرز باقاعدگی سے ادا کر رہا ہے، جن کے بارے میں سابق اوپنر محسن خان کا کہنا ہے کہ وہ کوچ کم اور سیاح زیادہ لگتے ہیں۔

Ijaz Butt Pakistan Cricket
حالیہ دنوں میں پی سی بی کے سابق اور موجودہ چیئرمین اعجاز بٹ اور ذکاء اشرف کے درمیان چھڑنے والی سرد جنگتصویر: AP

بتایا گیا ہے کہ سابقہ چیئرمین اعجاز بٹ نے اکتوبر دو ہزار دس میں کرکٹ بورڈ کی تجوری میں جو چار ارب ساٹھ کروڑ کی رقم چھوڑی تھی وہ دوتہائی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے پی سی بی کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ سرفراز نواز کا کہنا ہے کہ پی سی بی کی غلط روش کی وجہ سے ٹیم کا تو پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے اور جس بے دردی سے بورڈ کا پیسہ لٹایا جا رہاہے اسکے بعد پی سی بی کا اپنا بھی اب دیوالیہ ہونے والا ہے۔

اس ضمن میں پی سی بی کے ترجمان سے جب رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ ہم بورڈ کے مالی معاملات پر بات نہیں کرتے۔

ملک میں بین الاقوامی سیریز نہ ہونے اور ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کے ساتھ نشریاتی معاہدے کی مدت مکمل ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے ذرائع آمدن میں مسلسل کمی ہورہی ہے مگراسکی پرواہ کیے بغیر پی سی بی میں سیاسی بھرتیوں کا عمل جاری ہے۔

سابق ٹیسٹ امپائر میاں اسلم کہتے ہیں کہ بورڈ میں بھرتیاں بند ہونی چاہیے۔ میاں اسلم کے بقول آسٹریلوی بورڈ کو اٹھائیس اور بھارتی بورڈ کو ستائیس ملازم چلارہے ہیں ’’ہمارے بین الاقوامی کرکٹ بھی نہیں ہورہی اس کے باوجود بورڈ میں سیاسی بھرتیوں کی بھرمار سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔ پی سی بی کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال ہاکی کی طرح پاکستان کرکٹ کو بھی پاتال میں لے جائے گی۔

Pakistan Cricket
پاکستان کرکٹ بورڈ کی دریا دلی کا عالم یہ ہے کہ انہی کرکٹرز کے نام پر کمائے گئےکروڑوں روپے حال ہی میں پاکستان سپر لیگ کے ناکام منصوبے اور خواتین کے ایک سیاسی ٹورنامنٹ پر وار دیے گئےتصویر: DW/T. Saeed

پی سی بی کے انتظامی امور میں بھی صورتحال مضحکہ خیز ہے۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ملک کے دوسب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کی کرکٹ ایسو سی ایشنزکو دیوار سے لگا دیا گیا ہے جبکہ گڑھی خدابخش میں ایک سیاسی اسٹیڈیم کی تعمیر پر بیس کروڑ خوشی خوشی صرف کیے گئے مگر دوسری جانب چراغ تلے اندھیرا کے مصداق پی سی بی کے صدر مقام یعنی قذافی اسٹیڈیم کے چھ سال سے ادھورے مرکزی انکلوژر کو ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں پی سی بی کے سابق اور موجودہ چیئرمین اعجاز بٹ اور ذکاء اشرف کے درمیان چھڑنے والی سرد جنگ کے نتیجے میں اسٹار کھلاڑیوں کو بورڈ کے سابق سربراہ کے خلاف جس طرح استعمال کیا گیا اس نے پی سی بی کی پینسٹھ سالہ روداری کی روایات کوبھی داغدار کر دیا۔

پی سی بی کی ایسی ہی بے قاعدگیوں کی وجہ سے کھلاڑیوں کے بعد اب دو پاکستانی امپائرز ندیم غوری اورانیس صدیقی کو بھی اسپاٹ فکسنگ کی پاداش میں دھر لیا گیا ہے۔ سابق ٹیسٹ امپائر میاں اسلم نے سوال اٹھایا کہ پہلے کھلاڑی اب امپائرز اور اسکے بعد پاکستان میں فکسنگ میں کون پکڑا جائے گا؟ اور جب غیرملکیوں نے ہی پاکستانیوں کو پکڑنا ہے تو ہمارے اپنے لوگ کیا کر ہے ہیں؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ روم جلنے کے باوجود پاکستانی میڈیا کے زیادہ تر نیرو سب اچھا ہے کی بانسری بجا رہے ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹرز میں سے زیادہ تر کو کرکٹ بورڈ میں ملازمت مل چکی ہے اوراگر سکندر بخت یا اعجاز بٹ جیسا کوئی سر پھرا آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو بورڈ کے لقمہ خور ایسا جوابی وار کرتے ہیں کہ کوا سفید پھر نظر آنےلگتا ہے۔

رپورٹ: طارق سعید لاہور

ادارت: عدنان اسحاق