1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی سے نامور کھلاڑی آنا کیوں بند ہو گئے ہیں؟

طارق سیعد 23 جولائی 2013

ستر کے عشرے میں ظہیرعباس، مشتاق محمد، صادق محمد، آصف اقبال اور جاوید میانداد جیسے کراچی کے کرکٹرز کے بغیر ٹیم ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ مگرآج اسد شفییق کےعلاوہ کراچی کا کوئی بھی کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا مستقل رکن نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/19CAx
تصویر: DW/T. Saeed

کراچی میں کرکٹ انگریزوں نے انیسویں صدی کے آخر میں متعارف کرائی تھی۔ اس دور کے ایک پارسی پستون جی دستور کو بابائے کراچی کرکٹ کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہاں عباس خان، داؤد خان، ماسٹرعزیز اور بے جی ایرانی جیسے کھلاڑی خود کو منوا چکے تھے۔ آل انڈیا ٹیسٹ ٹیم کے پہلے مشہوراوپنرناومل جاومل کا تعلق بھی کراچی سے ہی تھا۔

تقسیم کے بعد حنیف محمد اور نسیم الغنی جیسے کرکٹرز جب کراچی آبسے تو کھیل کی رونقین عروج پر پہنچ گئیں۔ اُن دنوں کراچی پارسی انسٹیٹیوٹ، مسلم جیمخانہ، آغا خان جیمخانہ، پٹیل پارک اور جہانگیر پارک کراچی میں کرکٹ کے بڑے مراکز تھے۔ انیس سو چونتیس میں بھارت میں رانجھی ٹرافی شروع ہوئی تو پہلے میچ کی میزبانی کا اعزاز بھی کراچی جیمخانہ کے حصے میں آیا۔ شہر کے قلب میں واقع کراچی جیمخانہ ہی وہ گراؤنڈ ہے، جہاں انیس سو اکیاون میں ایم سی سی کو ہرانے کے بعد پاکستان کو ٹیسٹ اسٹیٹس ملا۔

Rahid Latif afghanische Cricket Mannschaft
جب شہر میں گولیاں چل رہی ہوں تو گراؤنڈ میں کون آئے گا، راشد لطیفتصویر: DW

سابق ٹیسٹ کرکٹر آفتاب بلوچ کے مطابق اسکی وجہ غیر معیاری کلب کرکٹ اورمحنت سے جی چرانا ہے۔ آفتاب بلوچ اور انکے والد شمشیر بلوچ دونوں کراچی اور سندھ کے مشہور کھلاڑی رہے ہیں۔ بلوچ نے بتایاکہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں کلب کرکٹ کا معیار بہت بلند تھا۔ کھلاڑی پتھریلے گراؤنڈز پر کھلیتے اور آگے بڑھنے کے لیے صرف محنت پر یقین رکھتے تھے آج اس شہر کا کھلاڑی شاٹ کٹ ڈھونڈتا ہے۔’’سہولتوں کی کمی نہیں مگر جنون کم پڑ گیا ہے اور ہرکھلاڑی گراس روٹ لیول کے مراحل سے گزرے بغیر انڈر 19 سے براہ راست ٹیسٹ کھیلنا چاہتا ہے۔ اسی رجحان کے سبب ماضی جیسے کرکٹرز کراچی سے سامنے نہیں آرہے‘‘۔

سابق کپتان راشد لطیف کے مطابق کراچی کے حالات بھی کرکٹ پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ’’یہاں آپریشن کلین اپ ہوا جس کے بعد کئی میدان ختم کر دیے گئے۔ لوگوں نے وہاں بڑی بڑی عمارات تعمیر کر لیں۔ جب شہر میں گولیاں چل رہی ہوں تو بچے بھی گلی تک محدود ہو جائیں گے گراؤنڈ میں کون آئے گا‘‘۔

راشد کے بقول سیمنٹڈ اور میٹنگ پچز کا خاتمے سے بھی کراچی میں اعلیٰ پائے کے بیٹسمین پیدا کرنے کی روایت ختم ہوئی ہے۔ راشد کے مطابق’’ کراچی کے تمام عظیم بیٹسمین میٹنگ وکٹوں کی پروڈکٹ تھے۔ جنوبی بھارت اور سری لنکا میں اب بھی میٹنگ پر کرکٹ ہوتی ہے۔ کراچی میں ٹرف وکٹوں کے آنے کے بعد بیٹسمینوں کی بیک فٹ کی ٹیکنیک متاثر ہوئی۔ ہماری کوشش ہے کہ مستقبل میں ٹورنامنٹس سیمنٹڈ اور میٹنگ پر کرائے جائیں‘‘۔

کراچی سٹی کرکٹ ایسو سی ایشن شہر میں کرکٹ کے فروغ کا ذمہ دار ادارہ ہے اور اسے کئی عشروں سے چلانے والےعہدیدار آج پھر اگلے الکیشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر جلال الدین نے کراچی کرکٹ کی تنزلی کا ذمہ دار کے سی سی اے حکام کو ٹھہرایا۔ جلال کا کہنا تھا کراچی میں پہلے سے کرکٹ کا نظام موجود تھا مگراس میں بہتری کی بجائے تنزلی آئی۔’’ کے سی سی اے نے نہ تو بہتر انداز میں ٹورنامنٹ کرائے نہ انفراسٹرچکر بہتر کیا اور نہ ہی ایسا کرنے کی ان کی نیت ہے۔ اس لیے شہر کی کرکٹ زوال پذیر ہوئی‘‘۔

Flash-Galerie Cricket Spieler Pakistan Asad Shafiq
آج کل اسد شفییق کےعلاوہ کراچی کا کوئی بھی کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا مستقل رکن نہیں ہےتصویر: APImages

راشد لطیف نے بتایا کہ پی سی بی اور کراچی کرکٹ ایسو سی ایشن دونوں قصوروار ہیں۔ پی سی بی نے کسی ایسو سی ایشن کواپنے پاؤں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کراچی کرکٹ کی بہتری کے لی وہ معین خان اور دیگر سابق کھلاڑی کوششیں کر رہے ہیں۔ گزشتہ سیزن میں کراچی کا قائد اعظم ٹرافی جیتنا انہی کوششوں کا ثمر ہے۔ میری خواہش ہے کہ اب کراچی ٹوئنٹی ٹوئنٹی چیمپئن بنے کیونکہ چیمپئن کی کلاس ہی الگ ہوتی ہے‘‘۔ راشد نے کہا کہ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنا ہونگی۔ یہ ایک دن یہ ضرور رنگ لائیں گی۔