چلی کی جیل میں خوفناک آتشزدگی، 80 سے زائد ہلاک
9 دسمبر 2010بحر الکاہل کے پانیوں پر واقع جنوبی امریکی ملک چلی حالیہ مہینوں میں مسلسل خبروں میں موجود ہے۔ فروری کے شدید زلزلے کے بعد پھنسے ہوئے کان کنوں کی بازیابی اور پھر ماریو ورگاس لیوسا کو ادب کے نوبل انعام سے نوازے جانے کا واویلہ ابھی تھما ہی نہیں تھا کہ دارالحکومت سنتیاگو کی ایک جیل کے اندر لگنے والے آگ سے ہونے والی ہلاکتوں سے حکومت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چلی کے صدر سباستیان پینیرا نے اس واقعہ کو دکھ ناک المیہ قرار دیا ہے۔ جیل کے اندر آتشزدگی کے دوران قیدیوں کے مرنے کے بعد چلی کے صدر نے بھی جیلوں کے غیر انسانی نظام میں تطہیر اور بہتری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
چلی کے حکام نے جیل کی آگ کو ایک بڑا سانحہ اور آفت قرار دیا ہے۔ کم از کم 81 افراد کے جھلس کر ہلاک ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ اکیس زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔ ان میں چودہ شدید جُھلسے ہوئے ہیں اور ان میں بعض کی حالت انتہائی نازک بیان کی جاتی ہے۔
علی الصبح جیل کی چوتھی منزل میں لگنے والی آگ کی وجہ قیدیوں کے درمیان لڑائی بتائی گئی ہے۔ اس منزل پر کم خطرناک قیدی رکھے جاتے تھے۔ قیدیوں کے سیلوں میں رکھے ہوئے فوم کے گدوں سے پھیلنے والی آگ نے تین منٹ میں ساری منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت ساری ہلاکتوں کی وجہ گدوں سے پیدا ہونے والا گہرا بدبودار اور خطرناک دھواں بھی خیال کیا جا رہا ہے۔ قیدیوں کے مرنے کی ایک وجہ جیل کے گارڈز کا دیر سے پہنچنا بھی بتایا جاتا ہے۔
جیل میں آتشزدگی کی خبر عام ہونے کے بعد جیل کے باہر قیدیوں کے خاندان افسردہ حالات میں جمع ہوتے چلے گئے۔ بے شمار والدین دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھے گئے۔ بعد میں جیل حکام اور اضافی تعینات پولیس اہلکاروں ان پریشان حال خاندانوں کو باری باری لاشوں کی شناخت کے لئے جیل کے اندر لے کر جاتے رہے۔ جیل میں آگ پھیلنے کی وجوہات جاننے کی انکوائری شروع کردی گئی ہے۔
چلی کی جیلیں دنیا بھر میں خاصی بدنام تصور کی جاتی ہیں۔ ویسے یہ اہم ہے کہ براعظم امریکہ بشمول لاطینی امریکہ اور ایشیاء کی بیشتر جیلیں اپنے حجم سے زیادہ قیدی رکھنے اور غیر انسانی سلوک کی وجہ سے بدنام ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق چلی کی جیلوں میں مقررہ تعداد سے دو سو فی صد زائد قیدی رکھے ہوئے ہیں۔ جنوبی اور لاطینی امریکی ملکوں میں زیادہ قیدیوں کی وجہ سے جیلوں کے اندر قیدیوں کے درمیان جھگڑے بھی معمول کی بات سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف