پاکستانی پارلیمان عسکری ترجیحات طے کرے گی: حنا ربانی کھر
2 فروری 2012وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے یہ بات معتبر امریکی جریدے ٹائم میگزین کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہی۔ خاتون وزیر خارجہ کے مطابق پاکستان میں پارلیمانی کمیٹی امریکہ کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس کمیٹی نے نومبر میں نیٹو کے فضائی حملے کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی امریکہ کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔
پاکستانی وزیر کے بقول اس کمیٹی کی رپورٹ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت تسلیم کی جائے گی مگر اس میں ان امور کی ’نئی تعریف بیان کی جائے گی جن پر پاکستان سمجھوتہ نہیں کرسکتا‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس تناظر میں پاکستان کی ’سرخ لائن‘ کیا ہوگی، تو انہوں نے کہا، ’’ کسی بھی پیمانے پر کسی بھی قسم کا یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے، جیسا ایبٹ آباد میں ہوا اور جو سلالہ میں ہوا۔‘‘ حنا کے بقول یہ اختیار پاکستان کی پارلیمان کو حاصل ہے کہ کس وقت کس علاقے میں فوجی کارروائی کا وقت ہے۔
یاد رہے کہ امریکی فوج کے ایک خصوصی کمانڈو دستے نے پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں خفیہ کارروائی کرکے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن و ہلاک کر دیا تھا۔ اسی شہر میں پاکستانی فوج کی کاکول اکیڈیمی قائم ہے اور ایبٹ آباد کا شہر راولپنڈی سے بہت زیادہ دور نہیں جہاں فوج کا صدر دفتر ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے اس لیے پاکستانی حکام کو اندھیرے میں رکھا کہ کہیں وہ اسامہ تک خبر نہ کردیں یا پھر فوجی کارروائی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے ملک کے اندر شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے باجود امریکہ کو شبہ ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی میں شامل کچھ عناصر شدت پسندوں کو معاونت فراہم کر رہے ہیں بالخصوص افغانستان میں سرگرم شدت پسند کو۔ پاکستانی وزیر خارجہ اپنے حالیہ دورہٴ افغانستان میں ایک مرتبہ پھر ان الزامات کو رد کرچکی ہے۔
ٹائم کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’’ افغان اپنے لیے جو راہ چنیں گے پاکستان ان کی حمایت کرے گا، پاکستان کی امید اور خواہش ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر واشنگٹن حکومت پر زور دیا کہ وہ قبائلی علاقے میں ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کردے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں دو سو سے زائد ڈرون حملے کیے جاچکے ہیں اور ان کی زد میں آکر قریب ڈھائی ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ مارے جانے والوں میں القاعدہ کے دہشت گردوں کی علاوہ بڑی تعداد عام شہریوں کی بھی بتائی جاتی ہے۔ وکی لیکس البتہ انکشاف کرچکا ہے کہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت ڈرون حملوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین