1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو کِنگ آف سپیڈ کی تلاش لیکن

23 اپریل 2013

پاکستان کرکٹ بورڈ نے فاسٹ باؤلرز کی تلاش میں ملک کے دس شہروں میں ٹرائلز کا اہتمام کیا لیکن 145کلومیٹر فی گھنٹہ کی شرط پر جب کوئی بھی پورا نہ اُترا تو فیصل آباد کے دو میڈیم پیسرز کو ہی کنگ آف اسپیڈ کے لیے نامزد کردیا گیا۔

https://p.dw.com/p/18LI8
تصویر: DW

پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) نے ایک اسپانسر کے ساتھ مل کر کنگ آف اسپیڈ کے لیے دس لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا تھا مگر ٹیلنٹ ندارد دیکھ کر بورڈ کے دو اعلیٰ عہدیدار عبدالقادر اور انتخاب عالم اپنی مایوسی کو ظاہر کیے بغیر نہ رہ سکے۔

محمود حسین سے راولپنڈی ایکسپریس تک

فاسٹ باؤلنگ اور پاکستان کرکٹ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ سن 1952ء میں ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھنے کے بعد جب فضل محمود اور خان محمد کے ناموں کا ڈنکا پٹ رہا تھا تو محمود حسین اس دور میں پاکستان کے تیز ترین باؤلر تھے۔

محمود حسین نے ہی سن 1960ء کے دلی ٹیسٹ میں بھارتی کپتان ناری کنٹریکٹر کو للکار کر گرایا ﴿زخمی کیا﴾ تھا اور میزبان ڈریسنگ روم کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا ’اسٹریچر لائیے‘ یہ مجھے نہیں کھیل سکتا۔

بعد ازاں شہرہ آفاق عمران خان کی آمد سے پہلے اور بعد میں فاروق حمید، سلیم الطاف، احتشام الحق اور محمد سمیع کی وجہ شہرت بھی ان کی تیز رفتار باؤلنگ رہی۔

Pakistan Cricket
تصویر: DW

عمران کی دیکھا دیکھی بیسویں صدی کے آخر میں ٹو ڈبلیوز﴿ وسیم اور وقار﴾ نے جو فاسٹ باؤلنگ کی اس پر ہمیشہ کرکٹ بھی ناز کرے گی۔ تاہم موجودہ میلینیم میں شعیب اختر کے بعد حریف بیٹسمینوں کی نیندیں حرام کرنے والا کوئی دوسرا پاکستانی پیس باؤلر سامنے نہیں آسکا اور چیف سلیکٹر اقبال قاسم بھی حال ہی میں اس پر اپنی تشویش ظاہر کر چکے ہیں ۔

دھرتی بانجھ نہیں ہوئی، آنکھ چاہیے

سابق پاکستانی فاسٹ باؤلرعاقب جاوید کہتے ہیں کہ ’ٹیلنٹ نہیں ہے‘ کہنا اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ عاقب کے بقول ٹیلنٹ ہے مگر اسے ڈھونڈنے کے لیے آنکھ اور اسے استعمال کرنے کے لیےعقل چاہیے۔ عاقب کہتے ہیں کہ ابھی یہ دھرتی بانجھ نہیں ہوئی، یہاں کم ازکم اب بھی دس باؤلرز ایسے ہیں، جن کی باؤلنگ رفتار ایک 140 سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ وسیم اکرم کے تربیتی کیمپ میں شامل صادق آباد کے سولہ سالہ لیفٹ آرم پیسر محمد آفتاب کو ڈومیسٹک سیزن کی دریافت قراردیا جا رہا ہے۔

پاکستانی باؤلرز میں خودغرضی کا رجحان

فاسٹ باؤلنگ میں ریورس سوئنگ کا آرٹ بھی ایک پاکستانی باؤلر سرفراز نواز نے متعارف کروایا تھا۔ عمران خان اور وقاریونس ریورس سوئنگ سے یوں تہلکہ مچاتے تھےکہ بیٹسمین کے لیے وکٹ یا پاؤں بچانا مشکل ہو جاتا تھا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پاکستانی باؤلرز کو ریورس سوئنگ کرنا بھی نہیں آتی۔ اس بارے میں عاقب جاوید کہتے ہیں کہ ریورس سوئنگ اس وقت ہوتی ہے، جب ٹیم متحد ہو اور تمام کھلاڑی ایک دوسرے کے راز جانتے ہوں لیکن موجودہ ٹیم کے کھلاڑیوں کو تو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے اور وہ گیند کو ریورس سوئنگ کے لیے تیار ہی نہیں کرتے۔

Pakistan Cricket
تصویر: DW

عاقب کے بقول اس وقت صورتحال سن 1960ء جیسی ہوچکی ہے۔ اس وقت پاکستانی کھلاڑیوں میں اعتماد کا فقدان تھا۔ آج اگر گیند ریورس سوئنگ کے لیے تیارہو بھی ہو جائے تو دوسرا باؤلر لعاب دہن لگا کر اسے جان بوجھ کے خراب کر دیتا ہےتاکہ اس کا ساتھی سوئنگ سے زیادہ وکٹیں نہ لے سکے۔ یہ خود غرضی پاکستان کرکٹ کے لیے ایک بے حد خطرناک رجحان ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کے محمدعرفان، جنید خان اور راحت علی جیسے باؤلرز کی خامیاں دور کرنے کے لیے سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔

پاکستانی ٹیم بنی سکول ٹیم

ماضی میں باؤنسر مارنا اور آنکھیں دکھانا پاکستانی باؤلنگ اٹیک کا معمول تھا مگر موجودہ باؤلرز کو یہ حربہ بھی نہیں آتا۔ عاقب جاوید اس صورتحال کا ذمہ دار ٹیم مینجمنٹ کو ٹھہراتے ہیں۔ عاقب کے مطابق انہیں پہلے ہی میچ میں بتایا گیا تھا کہ ویون رچرڈز کے سر میں باؤنسر مارو اوراس پر زبانی بھی ٹوٹ پڑو کیونکہ کھیل میں خوف یا بزدلی کی گنجائش نہیں ہوتی البتہ موجودہ مینجمنٹ نے بد قسمتی سے پاکستانی ٹیم کو اسکول کی ٹیم بنا دیا ہے۔ ملک کے امیج کے نام پر پروفیشنلز کرکٹرز کے ساتھ اسکول کے بچوں جیسا طرز عمل کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم گیند بنا کر ریورس سوئنگ کر رہی ہے اور ہمارے لڑکوں کواپنا ہی تھنک ٹینک مسلسل خوفزدہ رکھتا ہے۔ اس ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: امتیاز احمد