1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ متنازعہ کیوں؟

عثمان چیمہ
9 دسمبر 2024

حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے مابین دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ایک سیاسی کشیدگی کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کر کے مزید سیاسی عدم استحکام سے بچا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4nvvL
پاکستان میں دینی مدارس کی ایک بڑی تعداد ہے موجود ہے اور ان میں سے اکثریت حکومتی کنٹرول میں نہیں
پاکستان میں دینی مدارس کی ایک بڑی تعداد ہے موجود ہے اور ان میں سے اکثریت حکومتی کنٹرول میں نہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

 پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے نے حکومت اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان) کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ حکومت دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر کرانا چاہتی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مدارس پر حکومتی نگرانی کو تسلیم نہیں کرتی۔ صدرآصف علی زرداری نے حال ہی میں سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024، جو عام طور پر مدارس بل کے نام سے جانا جاتا ہے، اعتراضات کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ یہ وہ بل تھا، جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو چکا تھا لیکن صدر کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے یہ قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔

اس پیشرفت کے بعد سے حکومت اور جے یو آئی کے سربراہ  مولانا فضل الرحمن کے مابین سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس بل (مدارس بل) پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں  لانگ مارچ کی دھمکی دی ہے۔ مولانا جس بل کا نفاز چاہتے ہیں، اس میں تمام دینی مدارس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سوسائٹیزی ایکٹ کے تحت اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے رجسٹر ہوں۔ اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے لیے موجودہ مدارس کو چھ ماہ جبکہ نئے مدارس کو ایک سال کے اندر رجسٹریشن کرانے کی مہلت دی گئی تھی۔

حکومت کی کوشش ہے کہ وہ مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسڑڈ کرے
حکومت کی کوشش ہے کہ وہ مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسڑڈ کرےتصویر: MASSOUD HOSSAINI/AFP/Getty Images

اس بل میں مدارس کے نصاب کے حوالے سے کچھ پابندیاں بھی شامل کی گئی تھیں، جن میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ شدت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت پھیلانے والا کوئی مواد پڑھانا یا شائع کرنا ممنوع ہوگا۔ تاہم تقابلی مذہبی مطالعے اور اسلامی فقہ پر مبنی مضامین کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ اس  بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ مدارس سالانہ مالی آڈٹ کرانے کے بھی پابند ہوں گے۔

مولانا ناراض کیوں؟

جے یو آئی کا حمایت یافتہ بل  سوسائٹیز ایکٹ حکومت اور جے یو آئی (ف) کے درمیان ایک معاہدے کے تحت  پارلیمنٹ سے پاس کرایا گیا تھا۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے جے یو آئی (ف) کی حمایت حاصل کی تھی۔

 اس بل نے صدر کے دستخطوں کے بعد ق‍انونی شکل حاصل کر لینی تھی مگر صدر آصف علی زرداری نے اس پر دستخط نہیں کیے اور اعتراضات کے ساتھ اسے واپس بھیج دیا۔ ان اعتراضات میں سے ایک یہ تھا کہ مدارس کا تعلق تعلیم سے ہے، جو کہ ایک صوبائی معاملہ ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے اسے دھوکہ دہی قرار دیتے ہوئے دیگر مذہبی جماعتوں اور گرپوں سے مشاورت کے بعد حکومت کو لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر کام کر رہی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمانتصویر: Muhammed Semih Ugurlu/Anadolu/picture alliance

وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن میں کیا مسئلہ ہے؟

 جے یو آئی (ف) کے رہنما اور سابق سینیٹر قیوم سومرو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت مدارس کو رجسٹر کرانا ان کے لیے خودمختاری کو یقینی بناتا ہے جبکہ وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کا مطلب ان پر حکومتی کنٹرول ہوگا۔‘‘

قیوم سومرو نے مزید وضاحت کی کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا مطلب یہ ہوگا کہ مدارس کو ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے طور پر کام کرنے کی آزادی ہوگی، اگرچہ آڈٹ لازمی ہوگا۔ دوسری طرف، وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کے نتیجے میں ریگولیٹری اختیارات حکومت کو مل جائیں گے۔

حکومت اپنے موقف پر قائم

حکومت تمام تر دباؤ کے باوجود دینی مدارس کو وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹرڈ کرانے کے اپنے موقف پر قائم دکھائی دیتی ہے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت علما کا اپنا پریشر گروپ بھی بنا رہی ہے۔ اس بات کا اشارہ اس اقدام سے ملتا ہے کہ وفاقی منسٹر عطا اللہ تارڑ نے آج بروز پیر ایک پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کے اعتراضات کا بالواسطہ جواب دیا۔ اس پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ آل پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی سمیت متعدد دیگر علما بھی شریک ہوئے۔

عطا اللہ تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا، ''وزارتِ تعلیم پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرتی ہے، جیسے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر جامعات وغیرہ اسی طرح دینی تعلیمی اداروں کو ایک چھتری کے نیچے لانے کے لیے وزارتِ تعلیم میں وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن قائم کیا گیا ہے۔‘‘

کیا تمام مدارس مولانا کی رائے سے متفق ہیں؟

اس پریس کانفرنس کے بعد  ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مولانا طاہر اشرفی نےکہا کہ ملک میں مدارس کے پندرہ بورڈز ہیں، جن میں سے تقریباً  بارہ حکومتی مؤقف سے متفق ہیں۔ طاہر اشرفی نے کہا، ''مدارس بھی تعلیمی موضوع ہیں اور انہیں وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے تحت یا وزارتِ تعلیم کے ساتھ ہونے میں کیا فرق ہے، تو انہوں نے کہا، ''یہ فرق صرف مولانا فضل الرحمان ہی بتا سکتے ہیں۔‘‘

آل پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر محمود اشرفی
آل پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر محمود اشرفیتصویر: privat

عطا اللہ تارڑ  کی پریس کانفرنس پر اپنے ردعمل میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت علما کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ مدارس وزارتِ تعلیم کے تحت کام نہیں کریں گے۔

  ان کا کہنا تھ، ''میں اس وقت حکومت کی کسی تجویز پر غور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ بل دونوں ایوانوں سے تفصیلی بحث کے بعد پہلے ہی پاس ہو چکا ہے، اور اب اس عمل کو پٹری سے نہیں اتارا جانا چاہیے۔ حکومت مدارس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف، اور امریکہ کی طرف سے مطالبہ ہے۔ حکومت کو قوم کو بتانا چاہیے کہ اس نے عالمی طاقتوں کے کون سے مطالبات تسلیم کیے ہیں۔‘‘

بین الاقوامی ریسرچ کونسل فار ریلیجیس افیئرز پاکستان نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علامہ تحمید جان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''جے یو آئی (ف) وزارتِ تعلیم کے ریگولیشن کی مخالفت کر رہا ہے لیکن انہیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن زیادہ پیچیدہ ہوگی اور یہ طویل المدتی مسائل پیدا کرے گی، جیسے کہ مدارس کو سالانہ تجدید کی ضرورت ہوگی، اور بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے سکیورٹی کلیئرنس کے لمبے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ حکومت جو پیشکش کر رہی ہے وہ بہتر انتظام ہے۔‘‘