1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’معجزہ‘: سترہ روز بعد ملبے سے زندہ خاتون برآمد

11 مئی 2013

بنگلہ دیش میں ملبوسات تیار کرنے والے فیکٹری کمپلیکس کے انہدام کے وقت ریشما بیگم اس عمارت کی سب سے نچلی منزل پر کام کر رہی تھی۔ اسے اس حادثے کے سترہ روز بعد ملبے سے زندہ نکال لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/18Vz6
تصویر: Getty Images/AFP/STRDEL

’’ میں چیختی رہی لیکن کسی نے میری صدا سنی نہیں۔ مجھے دوسرے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن میری آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچی‘‘۔ لیکن سترہ روز بعد آخر کار ریشما کی نحیف سی آواز امدادی کارکنوں تک جا پہنچی۔ ریشما کو ملبے سے نکالنے کے مناظر ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیے گئے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق ریشما کو معمولی زخم آئے تھے اور وہ بات چیت بھی کر پا رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں اس حادثے میں دیگر افراد کے بچنے کی بھی امید پیدا ہو گئی ہے۔

Bangladesch Überlebende nach 17 Tagen gerettet
اٹھارہ سالہ ریشما نے سترہ روز تک خشک غذا اور پانی کی ایک بوتل پر گزارا کیاتصویر: Getty Images/STRDEL

امدادی کارکنوں کے مطابق اٹھارہ سالہ ریشما نے سترہ روز تک خشک غذا اور پانی کی ایک بوتل پر گزارا کیا۔ ڈھاکہ کے ایک نواحی علاقے میں 24 اپریل کو آٹھ منزلہ عمارت کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسے دنیا کا خونریز ترین فیکٹری حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امدادی کارکن 28 اپریل کو آخری مرتبہ ملبے سے کسی کو زندہ نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

ریشما کے بقول سب سے نچلی منزل پر ایک تنگ سے حصے میں مزید تین افراد اور بھی تھے تاہم اس دوران وہ بھی دم توڑ گئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے بھائی زاہد الاسلام  نے بتایا کہ سولہ سال کی عمر میں ریشما کی شادی گاؤں کے ایک آدمی سے کر دی گئی تھی تاہم ایک سال بعد ہی علیحدگی ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد ریشما روزگار کے غرض سے ڈھاکہ آ گئی اور گارمنٹ فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔

زاہد الاسلام کے بقول ریشما کی  ماہانہ آمدنی پچاس سے ساٹھ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی۔’’وہ روزانہ ہی اوور ٹائم کیا کرتی تھی تاکہ گھر والوں کی بہتر انداز میں مدد کی جائے۔ حادثے کی خبر سننے کے بعد ہم نے تمام ہسپتالوں کا رخ کیا اوراپنی بہن کو مردہ خانوں میں بھی تلاش کیا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پھر ریشما کے زندہ بچ جانے کی خبر آئی۔ ’’ہم اسے ایک معجزے سے کم نہیں سمجھتے اور جیسے ہی اسے ملبے سے باہر نکالا گیا تو میں نے اس کا چہرہ دیکھ کر کہا کہ یہ میری بہن ہے‘‘۔  اخبار ڈھاکہ ٹربیون نے لکھا ہے کہ ’’ گزشتہ کئی دونوں سے بری خبروں کے بعد یہ اچھی خبر سنائی دی۔ ریشما نے پوری قوم کے دلوں میں آس اور امید کے پہلو کو بیدار کر دیا ہے‘‘۔

Bangladesch Brand in einer Textilfabrik
تصویر: Reuters

 جمعے کے روز اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرنے کی خبر کے کچھ گھنٹوں بعد ہی انتظامیہ نے امدادی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے کچھ دیر بعد ہی ریشما کی کمزور سی پکار سنائی دی اور صورتحال یکدم تبدیل ہو گئی۔ ’’میرا نام ریشما ہے مجھے بچائیں، میرے بھائی مجھے باہر نکالیں‘‘۔

ai / sks (AFP,dpa)