معاشی دیوالیے کے بعد سری لنکا میں پہلے صدارتی انتخابات
21 ستمبر 2024معاشی بحران کے شکار سری لنکا میں آج اکیس ستمبر بروز ہفتہ ملک کے اگلے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ اس الیکشن کو ملک کے بے مثال مالیاتی بحران کے بعد نافذ کیے گئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کفایت شعاری کے ایک غیر مقبول منصوبے پر ریفرنڈم کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے اپنے غیر مقبول اقدامات کو جاری رکھنے کی خاطر نئے مینڈیٹ کے لیے ایک مشکل جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان اقدامات نے ملکی معیشت کو مستحکم کیا اور مہینوں تک جاری رہنے والی خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت کو ختم کیا۔ وکرما سنگھے نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں اس معاشی بدحالی اور بد امنی پر قابو پایا، جو 2022 میں ان کے پیشرو صدر کے ملک سے فرار کی وجہ بنی تھی۔
75 سالہ وکرما سنگھے نے ہفتے کی صبح اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد کہا،''میں نے اس ملک کو دیوالیہ پن سے نکالا ہے، اب میں سری لنکا کو ایک ترقی یافتہ معیشت، ترقی یافتہ سماجی نظام اور ترقی یافتہ سیاسی نظام فراہم کروں گا۔‘‘ لیکن 2.9 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف بیل کی شرائط پوری کرنے کی خاطر وکرما سنگھے کے ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر اقدامات نے لاکھوں افراد کومعاشی لحاظ سے جدوجہد کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔
دو مضبوط حریفوں سے مقابلہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وکرما سنگھے کو جن دو مضبوط چیلنجرز کا سامنا ہے، وہ ان میں سے ایک سے ہار بھی سکتے ہے۔ ان امیدواروں میں سے ایک انورا کمارا ڈسانائیکا ہیں، جو ایک زمانے میں مارکسسٹ پارٹی کے رہنما تھے اور ان کا ماضی پُرتشدد کاروائیوں سے داغدار ہے۔ ان کی پارٹی نے 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں دو ناکام بغاوتوں کی قیادت کی، جس میں 80,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور اس پارٹی نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں چار فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔
لیکن سری لنکا کے اقتصادی بحران نے 55 سالہ ڈسانائیکا کو جیتنے کا ایک موقع مہیا کیا ہے۔ ملک کے ''کرپٹ‘‘ سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے کے عہد کے بعد ان کی عوامی حمایت میں اضافہ دیکھا ہے۔ انہوں نے ایک پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ وہ ملکی اعلٰی ترین ملازمت حاصل کرنے کے لیے پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا، '' فتح کے بعد جھڑپیں یا کسی بھی قسم کا تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کو ایک نئے سیاسی کلچر کی ضرورت ہے۔‘‘
وکرما سنگھے کے دوسرے بڑے حریف 57 سالہ اپوزیشن لیڈر ساجیت پریماداسا ہیں، جوسابق صدر راناسنگھے پریما داسا کے بیٹے ہیں، جو 1993 میں ملک کی کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران مارے گئے تھے۔
ساجیت پریماداسا نے بھی بدعنوانی سے لڑنے کا عزم کیا ہے اور انہوں نے اور ڈسانائیکا دونوں نے آئی ایم ایف کے ریسکیو پیکیج کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرنے کا عہد کیا ہے۔
تھنک ٹینک ایڈوکاٹا کے مرتضی جعفری نے اے ایف پی کو بتایا، ''ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ایک مضبوط پیغام بھیجنے کی کوشش کر رہی ہےکہ وہ اس ملک کے طرز حکمرانی سے بہت مایوس ہیں۔‘‘ مجموعی طور پر 39 صدارتی امیدوار ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں ایک 79 سالہ ایسے امیدوار بھی شامل ہیں، جوگزشتہ ماہ دل کا دورہ پڑنے سے مرنے کے باوجود بیلٹ پر موجود ہیں۔
پولیس کی بھاری نفری حفاظتی ڈیوٹی پر
ان انتخابات میں 17 ملین سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ پولنگ بوتھوں، اسکولوں، مندروں میں قائم کیے گئے ووٹوں کی گنتی کے مراکز کی حفاظت کے لیے 63,000 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ پولیس کے ترجمان نہال تلدووا نے کہا، ''ہمارے پاس کسی بھی پریشانی کی صورت میں انسداد فسادات کے دستے بھی موجود ہیں، لیکن اب تک سب کچھ پرامن ہے۔ کچھ علاقوں میں، ہمیں پولنگ بوتھوں کو جنگلی جانوروں، خاص طور پر جنگلی ہاتھیوں سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کو تعینات کرنا پڑا ہے۔‘‘
حکومت نے ہفتے کے آخر میں شراب کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی اور کہا کہ نتائج کے اعلان کے ایک ہفتے بعد تک کسی بھی فتح کے جلسے یا جشن کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہفتے کی شام مقامی وقت کے مطابق سہ پہر چار بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے پر ووٹوں کی گنتی شروع ہو جائے گی۔ انتخابی نتائج اتوار کو متوقع ہیں، لیکن اگر مقابلہ بہت سخت ہوا تو باضابطہ نتائج آنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
ش ر ⁄ ع ت (اے ایف پی)