مسافر قافلے پر حملے کے بعد کرم میں فرقہ وارانہ تشدد
23 نومبر 2024ضلع کرم کے ایک مقامی پولیس اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ لوئر کرم میں شروع ہونے والی فرقہ وارانہ لڑائی کے نتیجے میں اب تک کم از کم تینتیس افراد ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہو گئے ہیں۔
مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ لوئر کرم کے کم ازکم تین مقامات پر شیعہ اور سنی مسلح گروپوں کے مابین تصادم جاری ہے۔ اس لڑائی میں بھاری اسلحہ استعمال کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
ضلع کرم میں یہ نئی کشیدگی ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی جب جمعرات کے دن وہاں ایک مسافر قافلے پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم بیالیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان کا تعلق پاڑہ چنار اور اہل تشیع کمیونٹی سے تھا۔
کرم پاکستان کا ایسا قبائلی ضلع ہے، جہاں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے۔ ماضی میں بھی شیعہ افراد کو چن چن کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔
پاکستان کی دو سو چالیس ملین آبادی میں شیعہ آبادی کا تناسب تقریبا پندرہ فیصد بنتا ہے۔ ان دونوں فرقوں میں ایک تاریخی دشمنی پائی جاتی ہے تاہم پاکستان میں یہ دونوں بقائے باہمی اور عمومی طور پر پرامن طریقے سے ہی رہتے ہیں۔
شہری اور سرکاری املاک پر حملے
ایک مقامی پولیس اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ مسافر قافلے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کے بعد جمعے کی شام مسلح افراد نے بگن اور باچا کوٹ کے علاقوں میں لوٹ مار شروع کر دی اور شہری و حکومتی املاک کو نذر آتش بھی کیا۔ بعد ازاں بگن اور علیزئی قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
اس پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ دونوں فریقین خودکار اور جدید اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی خاطر حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔
کرم میں مسافر قافلے پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ جب کہ پولیس نے بھی اس لرزہ خیز کارروائی کا کوئی محرک بیان نہیں کیا ہے۔
کرم ضلع میں جولائی سے اب تک ایسے ہی فرقہ وارانہ حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اُس وقت کرم میں زمین سے متعلق تنازعات نے جنم لیا تھا، جو بعد ازاں فرقہ وارایت کا رنگ اختیار کر گئے تھے۔
ع ب/ ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)