’دریا بادشاہوں کے سودے کر دیتا ہے‘
25 اکتوبر 2018مجھے نہیں معلوم کہ دریائے سندھ پر ڈیم کی مجوزہ تعمیر سے ’’خوشحالی آئے گی‘‘ کہ “میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘‘ والی بات، لیکن یہ معلوم ہے کہ اس دریا کے زیریں حصے جہاں یہ دریا سمندر میں جا ملتا تھا، اب وہاں سمندر اس کے کناروں سے ملنے آتا ہے۔ بلکہ دریا کے کنارے اور سمندر کے پانی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ دنیا کے بڑے دریائوں میں سے سندھو ڈیلٹا کی یہ تباہی وسیع اور خاموشی سے ہوئی ہے۔
ایک بڑا رقبہ دیکھتے ہی دیکھتے سمندر برد ہوئے ہیں۔ وجہ؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ پانی جو کسی بھی صورت کوٹری بیراج کے نیچے سے بہتا پہنچنا تھا، وہ پہنچنا بند ہو گیا۔ وہ جو سندھ اور وفاق کے درمیان انیس سو اکیانوے کے ’’سندھ واٹر اکارڈ‘‘ یا ’سندھ آبی معاہدہ’’ کے مطابق فراہم ہونا تھا وہ مہیا نہیں کیا گیا۔ دریائے سندھ کے بہاؤ کی جگہ ریت اڑنے لگی اور پھر ڈیلٹا کو سمندر نگل گیا۔
اسی صورت حال کا شکار ہو کر کسان اور چھوٹے زمیندار پہلے مچھیرے بنے۔ پھر ان افراد کی اکثریت نقل مکانی کرتی چلی گئی۔ میں انہیں ’’ماحولیاتی پناہ گزین‘‘کہوں گا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنیوگرافی کی تحقیق کے مطابق ویسے تو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے سترہ کریک تھے لیکن کوٹری بیراج سے پانی نہ چھوڑے جانے اور ماحولیات کی آلودگی کی وجہ سے فقط ایک کریک خوبار تک پانی پہنچتا ہے جو پہلے دریا کے بہہ نکلنے سے چھ ہزار دو سوکلومیٹر میٹر تک کو سیراب کرتا تھا اب محض بارہ سو کلومیٹر تک سیراب کرتا ہے یا شاید اتنا رقبہ بھی نہیں کرتا۔ ماہرین کے مطابق کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنا یا اسے پانی کا زیاں سمجھنا ماحولیات کے متعلق شعور کی کمی ہے۔
ماحولیات و سیاسی منظر ناموں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اسحاق منگریو نے ٹیلیفون گفتگو میں مجھ سے کہا: ’’دریا محض آبی ضروریات ہی پوری نہیں کرتا بلکہ کئی جہان اور زندگیاں دریا سے جڑی ہیں۔‘‘ اسحاق منگریو کے مطابق دریائے سندھ کی ڈیلٹا میں اب صرف کھاروچھان کریک اور شاہ بندر کریک سلامت ہیں۔ وہ بھی چل چلاؤ کے عالم میں ہیں۔
سندھی میں کہتے ہیں کہ ’’مروان موت ملوکاں شکار‘‘ یعنی کہ جانور کو اپنی موت کی اور صاحب لوگوں اپنے کو شکار کی فکر ہے۔
پاکستان میں آنے والے حکمرانوں کو نہ جانے سندھو دریا پر بڑا ڈیم باندھنے کا سودا سر میں کیوں سماتا ہے۔ اور اس دریا سے عبادت کی حد تک یا عشق اور جنون کی حد تک پیار کرنے والوں کو اس پر ہر قربانی دینے سے ذریغ نہ کرنے کا جنون۔ لاشک لدا خ سے لے کر کیٹی بندر تک بھی لوگ بستے ہیں، ان کا بھی اس دریا پر ایک جیسا حق حاصل ہے، بلکہ قانونی طور پر زیریں دریا رہنے والے لوگوں کو عالمی طور زیادہ حق ایک امرِ تسلیمہ ہے۔ ہے اور ہونا بھی چاہیئے۔ میں ایسے تمام لوگوں کو سندھو وادی کا باسی کہتا ہوں۔ یعنی کہ ہم اس دیس کے باسی ہیں جیس دیس میں سندھو بہتا ہے۔ لیکن بقول برطانوی صحافی اور محقق ایلس ایلیبینیا )جس نے کیٹی بندر سے لداخ تک دریائے سندھ کی مطالعاتی مہم سر کی تھی ( کے فوجی سرحدیں کھڑی ہو جانے کے باوجود بھی سندھو وادی میں رہنے والے لوگوں کے درمیان محبتیں کم نہیں ہوئیں۔‘‘
مجھے بھی لگا جب واشنگٹن میں ایک تبتی رہنما کہہ رہا تھا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک بہت بڑی قدر مشترک ہے، دریائے سندھ۔
یہ جو ڈیم بنانے کا جنون تھا، یہ تربیلا اور منگلہ کے بعد ایوب خان اور پھر بھٹو، یحیٰ خان، ضیا الحق، بینظیر بھٹو، نوازشریف، مشرف سب کو تھا لیکن شاید دیگر صوبوں سے مخالفت یا قومی اتفاق رائے کے فقدان سبب نہ بناسکے۔ جیسا کہ جامشورو پر دریائے سندھ کے کنارے گائوں سائیں ڈنو ملاح کے ایک قدیمی باسی بزرگ نے لکھاری اور ناول و ڈرامہ نگار عبدالقادر جونیجو سے کہا تھا: “ بادشاہ دریا کے سودے نہیں کیا کرتے پر دریا بادشاہوں کے سودے کر لیتا ہے۔‘‘
دریا کی تاریخ میں ایسے حکمرانوں کا عروج و زوال شاید ریت سے بھی نہ لکھا ہو کہ دریا کے لوگ دریا کی لہر لہر کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر جانتے ہیں۔ کاش ان حکمرانوں نے دریا کے کناروں پر رہنے والے لوگوں سے پوچھا ہوتا۔ سندھو دریا کی ڈیلٹا پر ماضی کے ہرے بھرے کھیتوں، دیہات اور شہروں پر آج اڑتی ریت پھانکتے لوگوں سے ہی مل لیتے۔
حسن مجتبیٰ، نیویارک