جرمنی میں ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ خود کشی بھی
19 اکتوبر 2010وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے جاری کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں گزشتہ برس کل جتنے بھی افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے 3.7 فیصد یا 31 ہزار 832 افراد کی موت غیر فطری وجوہات کی بنا پر ہوئی۔
2009 کے دوران جرمنی میں غیر فطری وجوہات کی بنا پر جاں بحق ہونے والے ایسے افراد میں وہ شہری بھی شامل ہیں، جو جرائم کی مسلح وارداتوں میں یا تو قتل کر دئے گئے تھے یا حادثاتی طور پر زہر خورانی کے باعث انتقال کر گئے تھے۔
پچھلے سال غیر فطری وجوہات کی بنا پر انتقال کر جانے والے اِن کل قریب 32 ہزار جرمن باشندوں میں سے سب سے بڑا گروپ ایسے شہریوں کا تھا جنہوں نے خود اپنی جان لے لی تھی۔ اپنی زندگی سے تنگ آ کر خود کشی کرنے والے جرمنوں کی تعداد پچھلے سال نو ہزار 571 رہی تھی۔
یہ تعداد 2008 کے دوران خود کشی کرنے والے جرمن شہریوں کی تعداد کے مقابلے میں 120 زیادہ تھی۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پچھلے برس جرمنی میں جو شہری حادثاتی طور پر موت کے منہ میں چلے گئے، اُن کی کُل تعداد آٹھ ہزار 492 رہی تھی۔
ان قریب ساڑھے نو ہزار افراد میں سے جو شہری سڑکوں پر رونما ہونے والے مختلف ٹریفک حادثات میں مارے گئے، ان کی تعداد چار ہزار 468 رہی۔ یوں گزشتہ برس خود کشی کرنے والے جرمنوں کی تعداد (9571) ٹریفک حادثات میں مارے جانے والے افراد کی تعداد (4468) کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ رہی۔
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق جرمنی میں عام سڑکوں اور شاہراہوں پر ہونے والے حادثات میں انسانی ہلاکتوں کی سالانہ تعداد پچھلے کئی سال سے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 2009 میں ایسی اموات کی مجموعی تعداد، جو ساڑھے چار ہزار کے قریب رہی، 2008 کے مقابلے میں واضح طور پر کم تھی۔
حکام نے سڑکوں اور موٹر گاڑیوں کے زیادہ محفوظ بنائے جانے، خود ڈرائیوروں کی طرف سے محفوظ ڈرائیونگ اور پولیس کی طرف سے نگرانی کے موثر نظام کو شاہراہوں پر ہلاکتوں میں اتنی واضح کمی کی بڑی وجوہات قرار دیا ہے۔
انہی سالانہ اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں گزشتہ برس مسلح جرائم کے واقعات میں کل 414 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عدنان اسحاق