1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: الیکشن کمیشن الزامات کی زد میں

جاوید اختر، نئی دہلی
7 اپریل 2019

بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ میں محض تین دن باقی رہ گئے ہیں لیکن ملکی الیکشن کمیشن مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی مسلسل شکایتوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3GQ3U
Pictureteaser Wahlen Indien 2019 HI

دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن کی طرف سے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی نہ کیے جانے سے ناراض ہیں اور کمیشن پر جانبداری کے الزامات عائد کر رہی ہیں۔

شکایتیں ہی شکایتیں
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب اپوزیشن نے بی جے پی کے کسی نہ کسی رہنما کے خلاف مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے کی شکایت درج نہ کرائی ہو۔ بی جے پی کے جن رہنماؤں کے خلاف شکایتیں درج کرائی گئی ہیں ان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ اترپردیش کے وزیر اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ اور آئینی ادارہ نیتی آیوگ کے نائب چیئرمین راجیو کمار شامل ہیں۔ حکومتی ملکیت والی کمپنیوں ایئر انڈیا اور انڈین ریلویز پر بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی شکایتیں درج کرائی جاچکی ہیں۔ ایئر انڈیا نے اپنے ٹکٹ پر وزیر اعظم مودی کی تصویر شائع کی تھی جب کہ انڈین ریلوے نے ٹرینوں میں دی جانے والی چائے کی پیالیوں پر بی جے پی کا انتخابی نعرہ ’میں بھی چوکیدار‘ چھاپ رکھا تھا۔ مودی کی شخصیت کو نمایاں کرنے کے لیے ان کی زندگی پر مبنی ایک فلم اور ’نمو ٹی وی‘ کے خلاف بھی شکایتیں درج کرائی گئی ہیں۔

'کمیشن لو لیٹرلکھ رہا ہے
بھارتی الیکشن کمیشن نے تاہم ان تمام الزامات کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ ’مشن شکتی‘ کے بعد قوم کے نام وزیر اعظم مودی کے خطاب کے خلاف اپوزیشن کی شکایت پر کمیشن نے مودی کو کلین چٹ دے دی۔ جبکہ ایئر انڈیا اور انڈین ریلویز کو مستقبل میں اس طرح کی غلطی کا اعادہ نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ کومستقبل میں اپنی تقریر کے دوران محتاط رہنے کے لیے کہا گیا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ان فیصلوں پر طنز کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ’کمیشن مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو لو لیٹر لکھ رہا ہے۔‘‘

'دوہرا پیمانہ
اپوزیشن نے الیکشن کمیشن پر دوہرا معیار اپنانے کا بھی الزام لگایا ہے۔ غیر بی جے پی حکومتوں والی ریاستوں کے وزرائے اعلٰی کا الزام ہے کہ ایک طرف تو کمیشن حکمراں جماعت کے تئیں نرم رویہ اپنا رہا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں والی حکومتوں کو مثالی ضابطہ اخلاق کی دہائی دے کر عوامی بہبود کے اقدامات سے روکا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بنرجی اور اوڈیشہ کے وزیر اعلٰی نوین پٹنائک نے شکایت کی ہے کہ ان کی بہبودی اسکیموں کو کیوں روک دیا گیا جب کہ بی جے پی حکومت کی ’پردھان منتری کسان یوجنا‘ کے تحت ہر کسان کے کھاتے میں دو ہزار روپے ڈالنے کی اجازت دے دی گئی۔

'ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے
اس تازہ پیش رفت کے حوالے سے بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے قومی سیکرٹری اتل کمار انجان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے رویے پر ناراضگی ظاہر کی اور دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا۔ اتل کمار انجان کا کہنا تھا، ’’موجودہ الیکشن میں الیکشن کمیشن کا رویہ مضحکہ خیز ہوگیا ہے۔ ایک طرف ایک صوبہ میں وہ الیکشن کی تاریخوں کااعلان کرتی ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم اسی وقت دوسرے صوبے میں پراجیکٹس کی نقاب کشائی کر رہے ہوتے ہیں۔ کمیشن نے مودی کو پوری چھوٹ دے رکھی ہے۔یہ دوہرا معیار ہے۔‘‘
سی پی آئی کے قومی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھارت کے ایک سو پینتس کروڑ عوام اور تقریباً ایک سو کروڑ رائے دہندگان کی امنگوں کی تکمیل کی حفاظت کرنے والا آئینی ادارہ ہے لیکن اگر یہ اپنے اصولوں کو نظرانداز کردے تو افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا مشورہ دیا: ’’سپریم کورٹ ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے تاکہ وہ غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کے الیکشن کمیشن کے کام پر نگرانی رکھ سکے۔ سپریم کورٹ اگر بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے لیے ایڈمنسٹریٹر اور بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کے لیے تین رکنی کمیٹی مقرر کرسکتا ہے تو الیکشن کمیشن کے لیے ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے میں کیا پریشانی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ الیکشن کے بعد وہ اس سلسلے میں عدالت سے باضابطہ رجوع کریں گے۔

'بغیر دانت کا شیر
الیکشن کمیشن نے موجودہ عام انتخابات کا باضابطہ اعلان کرنے کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کے لیے کئی رہنما ہدایات بھی جاری کی تھیں اور ان پر عمل کرنے کی درخواست کی تھی۔کمیشن نے خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران مذہب اور فوج کے نام کا استعمال کرنے سے گریز کرنے کے لیے کہا تھا لیکن ان دونوں کا خوب خوب استعمال ہو رہا ہے۔ حتٰی کہ خود وزیر اعظم مودی بھی ہندوتوا کے نام پر ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ نے بھی بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے لوگوں سے ووٹ دینے کی باضابطہ اپیل کی۔ جب الیکشن کمیشن سے اس سلسلے میں شکایت کی گئی تو اس نے شکایت کودرست پایا اور اپنی رائے بھارتی صدر کو بھیج دی جنہوں نے اس پر مزید کارروائی کے لیے اسے وزارت داخلہ کو بھیجا ہے۔ یہاں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ صرف معاملے کو ٹالنے کی کوشش ہے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمان ورون گاندھی نے 2017 میں الیکشن کمیشن کو ’بے دانت کا شیر‘ کہا تھا۔ ورون گاندھی کا کہنا تھا کہ الیکشن ختم ہوتے ہی کمیشن کو کوئی کیس درج کرنے کا اختیار ہی نہیں رہ جاتا ہے اور کیس درج کرنے کے لیے اسے بھی سپریم کورٹ جانا پڑتا ہے۔
ماضی میں کسی گورنر کے خلاف اس طرح کی شکایت 1990کی دہائی میں کی گئی تھی جب ہماچل پردیش کے گورنر گل شیر احمد نے اپنے بیٹے سعید احمد کے حق میں ووٹ دینے کی عوام سے اپیل کی تھی۔ جب الیکشن کمیشن نے اس پر ناراضگی ظاہر کی تھی تو انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا۔ کانگریس نے اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کلیان سنگھ سے بھی اخلاقاً اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجانے کا مطالبہ کیا ہے۔

'مودی کوڈ آف کنڈکٹ
کانگریس نے الیکشن کمیشن کے رویے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مثالی ضابطہ اخلا ق یعنی Model Code of Conduct کو ’مودی کوڈ آف کنڈکٹ‘ قرا ردیا۔ کانگریس نے کہا کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلٰی یوگی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر صرف مشورہ دے کر چھوڑ دیا گیا۔ اسی وجہ سے بی جے پی کے ایک  سینئر لیڈر اور وفاقی وزیر مختار عباس نقوی کو اسی طرح کا بیان دینے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ خیال رہے کہ یوگی نے بھارتی افواج کو’مودی کی فوج ‘ کہا تھا۔

'ماہرین کی رائے
آئینی امور کے ماہر پی ڈی ٹی آچاریہ کا کہنا ہے کہ مثالی ضابطہ اخلاق قانونی طورپر قابل نفاذ کوئی دستاویز نہیں ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر شاذ ونادر ہی کوئی سزا ملی ہے۔ اس لیے خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن ایک طرح سے بے اختیار ہے۔ آچاریہ کا مزید کہنا تھا، ’’مودی کو(ان کی تقریر پر) الیکشن کمیشن کی جانب سے کلین چٹ دیے جانے پر تو میں کچھ نہیں کہوں گا کہ آیا یہ مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے یا نہیں لیکن اگر یہ خلاف ورزی تھی تب بھی الیکشن کمیشن کیا کارروائی کرسکتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کمیشن وزیر اعظم یا ان کی حکومت کے خلاف کوئی واضح فیصلہ کن کارروائی کرے گا۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انداز میں انعقاد کے لیے قانونی کارروائی تو نہیں کرسکتا تاہم اس کے پاس ایسے اختیارات ہیں جن کا وہ استعمال کرسکتا ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا کمیشن کا کام ہے کہ اسے اپنے اختیارات کا کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کو زیادہ با اختیار بنانے کے لیے ماضی میں کئی کوششیں کی جاچکی ہیں تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔ الیکشن کمیشن خود بھی مزید اختیارات کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن یا تو انہیں مسترد کردیا گیا یا اس کے مطالبات موٹی موٹی فائلوں کے نیچے دب کر رہ گئے۔

Indien Premierminister Narendra Modi
الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی ہندوتوا کے نام پر ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیںتصویر: Ians
Indien Wahlen
بی جے پی کے جن رہنماؤں کے خلاف شکایتیں درج کرائی گئی ہیں ان میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe
Air India Boeing 747-400 Flash-Galerie
ایئر انڈیا نے اپنے ٹکٹ پر وزیر اعظم مودی کی تصویر شائع کی تھیتصویر: picture alliance/dpa
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید