1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی حکومت نے جماعت اسلامی پر عائد پابندی اٹھا لی

29 اگست 2024

بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت پر سے پابندی ہٹا دی گئی ہے، جو شیخ حسینہ کی حکمرانی کے آخری دنوں میں لگائی گئی تھی۔ عبوری حکومت نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ’دہشت گردانہ سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4k293
جماعت اسلامی نے گزشتہ سال ایک دہائی بعد پہلی مرتبہ اپنی سیاسی ریلی کی تھی
جماعت اسلامی نے گزشتہ سال ایک دہائی بعد پہلی مرتبہ اپنی سیاسی ریلی کی تھیتصویر: Sheikh Ferdous

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت، جماعت اسلامی پر سے بدھ کے روز پابندی ہٹا دی۔ حکام کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے میں لکھا گیا، "حکومت نے ... یکم اگست 2024 کے سابقہ ​​حکم کو منسوخ کر دیا ہے جس میں بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔" اور "یہ فوری طور پر نافذ ہو جائے گا۔" 

بنگلہ دیش میں مظاہروں کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی عائد

بنگلہ دیش: انتخابات اصلاحات کے بعد ہوں گے، محمد یونس

نگراں حکومت کی طرف سے جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے "دہشت گردی کی سرگرمیوں میں جماعت اور اس سے وابستہ افراد کے ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا۔"

پارٹی نے ان الزامات کی تردید کی تھی کہ اس نے طالب علموں کے مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی۔

جماعت اسلامی، جس کے لاکھوں حامی ہیں، پر 2013 میں الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جب ہائی کورٹ کے ججوں نے اس کے چارٹر کو 170 ملین آبادی والے مسلم اکثریتی ملک کے سیکولر آئین کے خلاف قرار دیا تھا۔

 جماعت اسلامی کو 2014، 2018 اور اس سال جنوری میں دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ان انتخابات میں شیخ حسینہ نے پانچویں بار کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اپوزیشن نے انت‍خابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

 حسینہ کی حکومت نے یکم اگست کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی پر مکمل پابندی لگا دی۔ لیکن اس کے چار دن بعد، طلبہ کے مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے برطرف ہونے بعد ملک سے فرار ہونا پڑا۔  وہ فی الحال بھارت میں مقیم ہیں۔

 حکومتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس نے جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا شبیر پر سے بھی پابندی ہٹا دی ہے کیونکہ "دہشت گردی اور تشدد میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملا"۔

 جماعت اسلامی نے ان الزامات کی تردید کی تھی کہ اس نے طالب علموں کے مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دی
جماعت اسلامی نے ان الزامات کی تردید کی تھی کہ اس نے طالب علموں کے مظاہروں کے دوران تشدد کو ہوا دیتصویر: Habibur Rahman

جماعت اسلامی کا ردعمل

 جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت اور  بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ حسینہ کی ایک وقت کی سب سے طاقتور جماعت عوامی لیگ اب کتنی طاقت ور رہ گئی ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ جماعت اگلے ہفتے کے اوائل میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گی تاکہ بنگلہ دیش الیکشن کمیشن اس کا رجسٹریشن بحال کرے، اور وہ انتخابات میں حصہ لے سکے۔

جماعت اسلامی پر، جو پہلے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نام سے جانی جاتی تھی، برصغیر کی تقسیم سے پہلے 1941 میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں قائم ہونے کے بعد سے، چار بار پابندی لگائی جا چکی ہے۔ 1959 اور 1964 میں پاکستان میں نئے آئین کے قیام کے بعد اور 1972 میں آزاد بنگلہ دیش میں جماعت کو دیگر تمام مذہبی جماعتوں کے ساتھ کالعدم قرار دے دیا گیا۔

جماعت کے متعدد اہم اور سینیئر رہنماوں کو قتل، اغوا اور عصمت دری سمیت انسانیت کے خلاف جرائم جیسے الزامات کے ت‍حت پھانسی دے دی گئی یا جیل بھیج دیا گیا۔

جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی کے بعد بنگلہ دیش میں مظاہرے

دریں اثنا بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے جماعت اسلامی پر سے پابندی اٹھانے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے کہا،"ہم کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔ آئین لوگوں کو کسی بھی پارٹی کی حمایت کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اسے آزادی اور خودمختاری کی حمایت کرنی چاہیے۔‘‘

خیال رہے بی این پی کی مخلوط حکومتوں میں جماعت اسلامی کے افراد وزارتی عہدوں پر فائز تھے۔

بنگلہ دیش میں دائیں بازو کے مذہبی گروہ طاقت جمع کر سکتے ہیں کیا؟

'ہم بھارت مخالف نہیں'

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان کی پارٹی ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگی اور مستحکم تعلقات کی خواہاں ہے لیکن نئی دہلی کو اپنے پڑوسیوں کے لیے اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

رحمان نے دعویٰ کیا کہ جماعت کے بارے میں نئی دہلی کا "بھارت مخالف" جماعت کے طور پر تاثر غلط ہے اور کہا کہ جماعت کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش کے حامی ہیں اور صرف بنگلہ دیش کے مفادات کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

رحمان نے کہا کہ جماعت بھارت اور بنگلہ دیش کے قریبی تعلقات کی حمایت کرتی ہے لیکن یہ بھی چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان، چین اور امریکہ کے ساتھ مضبوط اور متوازن تعلقات رکھے۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے رحمان نے کہا کہ جماعت اسلامی اسلام آباد کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ "ہم برصغیر میں اپنے تمام پڑوسیوں بشمول بھارت، پاکستان، نیپال، میانمار، بھوٹان اور سری لنکا کے ساتھ مساوی اور متوازن تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ توازن استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔"

دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کے بارے میں پوچھے جانے پر رحمان نے کہا، "ہم امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن اور مستحکم تعلقات چاہتے ہیں، کیونکہ اس عالمگیر دنیا میں، ہم مختلف طریقوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔"

ج ا ⁄  ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، پی ٹی آئی)