اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے بزرگ شہریوں کی پناہ گاہ: انمول ہوم
2 مئی 2017پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ماضی میں خاندان اور خاندانی نظام کو بہت زیادہ معاشرتی اہمیت حاصل رہی ہے، چند عشرے پہلے تک کسی اولڈ ہوم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ تاہم اب اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کبھی صرف مغربی معاشروں میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ سمجھے جانے والے اولڈ ہوم اب پاکستان میں بھی نظر آنے لگے ہیں، جہاں ضرورت مند عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک اولڈ ہوم انمول زندگی ویلفیئر ٹرسٹ کا شیلٹر ہاؤس ہے، جہاں اس وقت اٹھائیس بزرگ شہری رہائش پذیر ہیں۔
پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کی ایک عمارت میں قائم ضعیف افراد کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے وجود میں آنے والا انمول زندگی ٹرسٹ گزشتہ چھ سال سے کام کر رہا ہے۔ اس ٹرسٹ کے بانی پرویز امانت ہیں، جو پیشے کے لحاظ سے فزیوتھراپسٹ ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امانت پرویز نے بتایا کہ اس شیلٹر ہوم کے قیام کا خیال انہیں ایک مریضہ کی فزیوتھراپی کے دوران آیا۔
انہوں نے بتایا، ’’ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں فزیوتھراپی کے شعبے سے نجی طور پر منسلک ہو گیا۔ انہی دنوں میں ایک مریضہ کی فزیوتھراپی کے لیے اس کے گھر گیا۔ اس خاتون کے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اس کی مزید دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے اور کوئی ایسا اداراہ تلاش کر رہے تھے جہاں اس مریضہ کو داخل کرایا جا سکے۔‘‘
امانت پرویز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس مریضہ میں مجھے بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی جھلک نظر آتی تھی۔ اس خاتون کے اہل خانہ کی بات سن کر مجھے دکھ ہوا۔ میں نے اپنے والد سے بات کی اور کہا کہ میں اس مریضہ کو دیکھ بھال کے لیے اپنے گھر لانا چاہتا ہوں۔ اس پر میرے والد نے میری حوصلہ افزائی کی۔ پھر جب اس خاتون کے اہل خانہ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس مریضہ کو کسی کے گھر نہیں بلکہ کسی ادارے میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ تب میں نے اپنے خاندان سے مشورہ کرتے ہوئے اس شیلٹر ہوم کا آغاز کیا اور اس مریضہ کو یہاں لے آیا۔ آج اس اولڈ ہوم میں پانچ خواتین اور تئیس مردوں کی ہر ممکن سطح پر نگہداشت کی جاتی ہے۔‘‘
امانت پرویز کے مطابق ان کے شیلٹر ہوم میں تین طرح کے افراد مقیم ہیں، ’’ان میں سے چند ایسے بزرگ شہری ہیں، جن کی اولاد انہیں یہاں چھوڑ گئی ہے اور انہیں کبھی کوئی ملنے نہیں آتا۔ دوسرے وہ ضعیف شہری ہیں، جن کی نہ تو کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اور وارث۔ تیسری قسم ایسے افراد کی ہے، جن کے اپنے بچے کسی نہ کسی وجہ سے انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ اپنے بزرگوں کو یہاں داخل کرانے کے بعد نہ صرف انہیں ملنے آتے ہیں بلکہ ہمارے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی کام بھی کرتے رہتے ہیں۔‘‘
انمول زندگی اولڈ ہوم کے بانی بتاتے ہیں کہ اس ادارے کو شروع کرنے پر ان کے دوستوں اور اہل خانہ نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی انہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی مشکل مذہب کی وجہ سے عطیات کا نہ ملنا تھی۔ امانت پرویز نے بتایا، ’’میں خود چونکہ مذہب کے لحاظ سے کرسچن ہوں، اس لیے جب میں نے یہ ادارہ شروع کیا تو چند لوگوں نے تو فنڈز دیے لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے کہ میں کرسچن ہوں اور کرسچن کو زکواۃ نہیں دی جا سکتی۔ اس وجہ سے ہم نے بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ یہاں تک کہ دو دو مہینے ہم گھر والوں نے دونوں وقت آدھی آدھی روٹی کھا کر گزارا کیا لیکن اس ادارے کو بند نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اب بھی مالی عطیات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے چونکہ ہم نہ صرف ایسے ضرورت مند افراد کو رہائش اور علاج کی سہولیات مہیا کرتے ہیں بلکہ ادارے کے عملے کی تنخواہیں، عمارت کا کرایہ اور تمام یوٹیلیٹی بل بھی خود ہی ادا کرتے ہیں۔‘‘
فزیوتھراپسٹ امانت پرویز کے بقول گرچہ ان کو مذہب کے بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ اپنے ادارے میں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کے بغیر اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر مجبور اور ضرورت مند بزرگ شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں، ’’میں نے اس ادارے کو مذہب کے نام پر نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر قائم کیا۔ میں کسی کا مذہب یا رنگ اور نسل دیکھ کر اس کی خدمت نہیں کرتا بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کرتا ہوں۔ مجھے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اب میرے بچے جوان ہو رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کے لیے میں یہ کام چھوڑ دوں۔ لیکن میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ میں خدا کی خوشنودی کے لیے یہ کام کر رہا ہوں اور وہی میرے لیے ہر چیز کا بندوبست کر دیتا ہے۔‘‘
امانت پرویز کا قائم کردہ انمول زندگی اولڈ ہوم یا شیلٹر ہاؤس اب انتقال کر چکے ملک کے نامور سماجی کارکن مرحوم عبدالستار ایدھی کے قائم کردہ شیلٹر ہاؤس جتنا بڑا تو نہیں اور نہ ہی وہاں رہنے والے افراد کی تعداد ایدھی شیلٹر ہاؤس کے مکینوں جتنی ہے، پھر بھی محدود وسائل اور بہت سی مشکلات کے باوجود خدمت کے جذبے سے سرشار امانت پرویزکی جانب سے کی جانے والی انسانیت کی بے لوث خدمت انہیں یقینی طور پر ایک مقامی ہیرو بنا چکی ہے۔