یورپ میں شديد سردی کی لہر، مہاجرین کے لیے بھی خطرہ
9 جنوری 2017یوں تو یونان میں خيوس کے جزیرے پر رہنے والے باقی ملک کی طرح ہلکے جاڑے کے عادی ہیں تاہم جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو خيوس جزیرے کی ایک رہائشی جینی کالی پوسی نے بتایا ہے کہ شودا نامی مہاجر کیمپ میں صورتِ احوال بد تر ہو رہی ہے۔
کالی پوسی کا کہنا تھا، ’’ کیمپ میں رہائشی مکانات میں عرصے سے گنجائش سے زائد مہاجرین سکونت پذیر ہیں اور وہ تارکینِ وطن جنہیں یہاں جگہ نہیں مل سکی، اب بجلی اور گرمائش کے انتظامات کے بغیر موسمِ گرما کے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔‘‘ جینی کالی پوسی کے مطابق، ’’ بچے ہوں یا بڑے اگر خیمے سے باہر نکلیں تو اُنہیں برفیلی مٹی میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔‘‘
یہاں اِس وقت ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق لگ بھگ 15،500 تارکینِ وطن ترکی واپس بھیجے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ترکی اور یونین کے مابین مہاجرین کی آمد سے متعلق یہ معاہدہ گزشتہ برس مارچ میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزائر پر پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جانا ہے۔
جرمن پولیس کے مطابق ہفتے کے روز انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والا ایک شخص 19 تارکینِ وطن کو بائرن کی موٹر وے سے دور ایک وین میں چھوڑ کر چلا گیا جبکہ درجہ حرارت منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اِن تارکینِ وطن میں 14 بڑے اور پانچ بچے شامل تھے۔ موسم کی شدت جھیلنے والے اِن افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں یورپ کے ممالک میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے گِر چکا ہے۔ برف باری اور موسم کی اِس شدت کے باعث یورپ بھر میں کئی اموات واقع ہوئی ہیں۔