یاداشت روزانہ تشکیل نو کے مرحلے سے گزرتی ہے
30 مئی 2011پروفیسر الزبتھ لوفٹس کا تعلق کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کے نفسیات کے شعبے کے علاوہ علم جرائم اور علم قانون کے شعبوں سے بھی ہے۔ ان کی تحقیق کا مرکزی موضوع ہمیشہ سے ’ یاداشت‘ رہا ہے۔ انہوں نے 70 کے عشرے میں یاداشت کے بارے میں ایک تجرباتی مطالعہ کیا۔ اس میں شریک افراد کو ٹریفک حادثات کے نقلی مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بعد ان افراد سے حادثات کے واقعات کی ترتیب کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ اس تجربے میں شامل افراد کی طرف سے ان سوالات کے جتنے بھی جوابات سامنے آئے اُن سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک ہی حادثے کا سین دیکھنے والے مختلف گواہوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے کیا دیکھا تو ہر ایک کا جواب ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ معنی خیز سوالات کے علاوہ بھی گواہوں کے بیانات میں غلطی کی شرح بہت زیادہ تھی۔
پروفیسر لوفٹس کا یہ تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا تھا کیونکہ اس کے نیتجے میں پہلی بار اس امر کا اندازہ ہوا کہ بیرونی عناصر کس طرح اپنی رائے دیتے ہوئے گواہی کو توڑ مروڑ سکتے ہیں۔ پروفیسر لوفٹس نے 250 عدالتی کارروائیوں میں بذات خود حصہ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گواہوں سے پوچھ گچھ کی تکنیک میں واضح تبدیلی آئی۔
ماہر نفسیات پروفیسر الزبتھ لوفٹس نے یاداشت کے بارے میں طویل عرصے تک جو تجربات کیے اُن کی روشنی میں انہوں نے ایک اور کمال حاصل ہوا جو اُن سے قبل دوسرے ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا۔ مثلاً یاداشت میں اس حد تک تبدیلی لانے کا عمل کہ ذہن کے اندر ایسے واقعات کے نقوش ابھرنے لگیں جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئے۔
1992 ء میں پروفیسر لوفٹس نے والدین کی طرف سے بتائے گئے مختلف واقعات کی تفصیلات کی روشنی میں یاداشت کے بارے میں ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے اس تجربے میں شامل افراد سے پوچھا کہ اگر وہ بچپن میں کسی شاپنگ سینٹر میں گم ہو جاتے ان کی ذہنی حالت کیسی ہوتی۔ وہ کیا محسوس کرتے؟
ایک سال بعد پروفیسر الزبتھ لوفٹس نے اس تجربے میں حصہ لینے والے تمام افراد کو بچوں کی ایسی تصاویر دکھائیں جو حقیقی نہیں تھیں، تاہم ان افراد نے اس امر کا یقین کر لیا کہ وہ ڈزنی لینڈ میں بگس بنی سے مل چُکے ہیں، جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کیوں کہ بگس بنی ڈزنی لینڈ میں ہو ہی نہیں سکتا، یہ تو امریکہ کی فلم اور ٹیلی وژن انڈسٹری سے تعلق رکھنا والی معروف کمپنی ’وارنر برادرز‘ کا ایک معروف کردار ہے۔
پروفیسر الزبتھ لوفٹس کے یاداشت سے متعلق تجربات کی روشنی میں ماہرین نفسیات بچپن میں صدمے کا شکار ہونے والوں کے اذہان پر پائے جانے والے ان خوفناک نقوش کو مٹانے اور تکلیف دہ یادوں کو بھلانے کے طریقوں کے بارے میں مزید ریسرچ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں Propranolol نامی دوا جو علاج قلب کے لیے استعمال کی جاتی ہے، کار آمد ثابت ہوئی ہے۔
ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کی ماہر نفسیات ’میرل کِنٹ‘ نے متعدد مریضوں پر Propranolol کا تجربہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دوا چند مخصوص واقعات کے نقوش کو اذہان سے مٹانے اور بعض کیسس میں ان واقعات کے بارے میں پائے جانے والے جذبات میں تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق