گولیوں کے خولوں سے بنا ’جنگ کا چہرہ‘
8 اگست 2015نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گولیوں کے یہ خول یوکرائن کے علیحدگی پسند مشرقی علاقوں سے اکٹھے کیے گئے۔ اے ایف پی نے یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ داریا مارشینکو کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں رکھا ہوا یہ دو میٹر سے زیادہ بلند فن پارہ وہاں موجود باقی تمام چیزوں سے ممتاز نظر آتا ہے۔ اس میں پوٹن کا چہرہ حقیقت سے بے حد قریب نظر آتا ہے اور اس تصویر میں اُنہیں سیاہ سوٹ اور سرخ ٹائی میں ملبوس دکھایا گیا ہے۔
تینتیس سالہ داریا مارشینکو نے بتایا:’’شروع شروع میں ایک ہی کمرے میں اس کے ساتھ سونا ذرا سا خوف زدہ کر دینے والا تجربہ تھا لیکن پھر مجھے اس کی عادت ہو گئی۔‘‘
داریا مارشینکو نے کمرے کے پردے گرا دیے اور پھر ہاتھ میں ایک لیمپ کو اِدھر اُدھر لے جاتے ہوئے دکھایا کہ کیسے مختلف زاویوں سے روشنی پڑنے پر باسٹھ سالہ پوٹن کے چہرے کے تاثرات بدلتے چلے جاتے ہیں۔ فن کارہ نے بتایا کہ کیسے ایک وقت میں اس پورٹریٹ کی آنکھیں سخت نظر آتی ہیں اور پھر مختلف روشنی میں مہربان نظر آنے لگتی ہیں:’’کبھی وہ خود پر فخر کرتا دکھائی دیتا ہے، کبھی الجھن میں نظر آتا ہے یا سنجیدہ نظر آتا ہے۔ یہ کسی سوویت دور کے پوسٹر پر نظر آنے والا ایک عام شخص بھی ہو سکتا ہے اور ایک سُپر مین بھی۔‘‘
داریا مارشینکو کی اس تصویر کو یورپی ذرائع ابلاغ میں بے حد شہرت ملی ہے تاہم یوکرائن کے بڑے ہمسایہ ملک روس میں اس تصویر کا ذکر کم کم ہی ہوا ہے، جہاں سولہ ماہ سے یوکرائن کے ساتھ جاری تنازعے میں روس کے ملوث نہ ہونے کا ذکر تواتر سے ملتا ہے اور جہاں پوٹن کو بے حد مقبولیت حاصل ہے۔
داریا مارشینکو اپنے اس شک و شبے کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کرتیں کہ دراصل پوٹن نے ذاتی طور پر اس تنازعے کو ہوا دی، جس میں اب تک تقریباً سات ہزار انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں:’’جب لوگ اس فن پارے میں پوٹن کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھتے ہیں تو اس سے مخصوص چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ جنگ باقی تمام جنگوں سے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک جھوٹ پر مبنی ہے۔‘‘
داریا مارشینکو نے بتایا کہ اُسے سب سے پہلے اُس کے اُس بوائے فرینڈ نے مٹھی بھر خول لا کر دیے تھے، جو اُس ’یورو میدان‘ تحریک کا ا یک سرگرم رکن ہے، جس نے بدعنوان اور غیر مقبول صدر وکٹر یانُوکووِچ کو فرار ہو کر روس میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ بعد ازاں محاذ پر سرگرم اُس کے دوست اُسے یہ خول روانہ کرتے رہے:’’ہر خول ایک ایسی زندگی کی علامت ہے، جس میں خلل ڈال دیا گیا ہو۔ دنیا یہ محسوس نہیں کر رہی کہ میرے وطن نے کتنا کچھ کھو دیا ہے۔ ایسے میں گولیوں کے خولوں کی مد سے کام کرنے کی خواہش ایک قدرتی خواہش بنتی چلی گئی۔‘‘
گولیوں کے خولوں سے بنا پوٹن کا یہ پورٹریٹ ’جنگ کے پانچ عناصر‘ نامی سیریز کا پہلا شاہ کار ہے۔ دیگر فن پارے بھی خولوں یا پھر جنگ میں استعمال ہونے والے دیگر ہتھیاروں کی مدد سے بنائے جائیں گے۔
اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ ولادیمیر پوٹن اس بات کو رَد کرتے ہیں کہ وہ میڈیا پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن داریا مارشینکو کو یقین ہے کہ پوٹن اُس کے فن پاروں کو دیکھ چکے ہوں گے:’’میں امید کرتی ہوں کہ وہ کم ا ز کم سوچے ضرور اور خود یہ یہ پوچھے کہ کیا وہ واقعی اس انداز میں لوگوں کی یاداشت میں محفوظ رہ جانا چاہتا ہے۔‘‘