کاغان اور ناران: یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں جہاں باقی تمام کاروبار متاثر ہوئے وہیں پاکستانی سیاحت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس پکچر گیلری میں سیر کیجیے، پاکستان کے دو مشہور سیاحتی مقامات ناران اور کاغان کی۔
دھرم سرجھیل اور اس کا دلفریب قدرتی حسن
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحدوں کے سنگم پر واقع دھرم سرجھیل تقریباﹰ ساڑے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ گلیشیئرز کے پانیوں سے بنی ہوئی جھیل ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہاں سیدگئی جھیل، آنسو جھیل، جھیل سیف الملوک، کنڈول جھیل، پائے جھیل، سری جھیل، دریائے پنجکورہ اور کئی دیگر مقامات ایسے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو سحر میں لے لیتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن اور تاریخی ورثہ
خیبر پختونخوا میں ہزارہا سال پرانی تہذیبی باقیات اور آثار قدیمہ کی کوئی کمی نہیں۔ قدرت نے پاکستان کے اس حصے کو بہت سی وادیوں اور پہاڑوں سے بھی نوازا ہے۔ ناران سے دھرم سر جھیل جانے کا یہ راستہ سیاحوں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث اس لیے بھی ہے کہ عموماﹰ وہ دیگر جھیلوں کی طرف جاتے یا آتے ہوئے یہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتے ہیں۔ اکثر سیاح یہاں تصاویر اور ویڈیوز بناتے یا پھر پکنک مناتے بھی نظر آتے ہیں۔
کورونا کے باعث ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد بہت کم
اس بار کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جولائی کے وسط تک غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ نہ ہونے کے برابر رہی اور مقامی سیاح بھی بہت ہی کم تعداد میں ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن جو سیاح اب ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں، ان کی بڑی خوشی سے خاطر مدارت کی جاتی ہے کیونکہ ان خوبصورت وادیوں میں لوگوں کو زیادہ تر آمدنی انہی سیاحوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
لولو سر جھیل تقریباﹰ گیارہ ہزار دو سو فٹ کی انچائی پر واقع
لولو سر جھیل وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی تقریباﹰ تین کلومیٹر ہے اور یہ تقریبا گیارہ ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس جھیل کا شمار دریائے کنہار کے ہیڈ واٹرز میں ہوتا ہے اور یہ وادی ناران سے دو سو ستاسی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناران کے زیادہ تر مکین پشتو، اردو اور ہندکو زبانیں بولتے ہیں۔ گھنے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں سے بھرا ہوا یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔
کاغان کے قلب میں دریائے کنہار
وادی کاغان کو اس کا نام کاغان نامی قصبے کی وجہ سے دیا گیا۔ بابو سر ٹاپ کے قریب سے شروع ہوتا ہوا دریائے کنہار پوری وادی کاغان کو سیراب کرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں مل جاتا ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو چھیاسٹھ کلو میٹر ہے۔ دلنشیں پہاڑوں سے گزرتا ہوا یہ دریا اپنے انتہائی ٹھنڈے اور صاف پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حسین جنگلات اور پہاڑ انتہائی دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔
دلفریب پیالہ جھیل کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی
منفرد ساخت والی پیالہ جھیل وادی ناران سے چالیس کلو میٹر دور ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ اس کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی سیاحوں کا دل اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یہ جھیل اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ ناران اور کاغان کی وادیوں کو ان کے حسین نظاروں، جھیلوں، چشموں، آبشاروں اور گلیشیئرز کے باعث سیاحتی حوالے سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔
کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی کے خوبصورت قصبات
ناران کاغان کے علاقے میں سترہ ہزار فٹ سے زیادہ بلندی والی کئی چوٹیاں واقع ہیں۔ ان حسین وادیوں کے راستے میں کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی جیسے بہت سے خوبصورت قصبات آتے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی اس خطے میں کئی انتہائی خوبصورت سیاحتی مقامات ایسے ہیں، جنہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہیں دی جا سکی۔
کورونا وائرس کے باعث سیاح ان وادیوں میں نہ ہونے کے برابر
آج کل ان وادیوں میں سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہاں رونقیں اور چہل پہل بھی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جل کھنڈ میں دریائے کنہار کے قریب واقع یہ ریسٹورنٹ بالکل سنسان تھا۔ ریسٹورنٹ کے مالک کے مطابق اس سیزن میں یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی لیکن اب تو سیاحوں نے پہلے سے کرائی گئی بکنگز بھی منسوخ کر دی ہیں اور اس وبا نے تو ملکی سیاحت تو دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
عدم توجہ کا نتیجہ سہولیات کا فقدان
پاکستان کے پاس قدرتی حسن کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ سیاحت کو جدید خطوط پر ترقی دے کر ملک کے لیے بے تحاشا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سیاحتی شعبہ ملکی معیشت میں اپنی وہ ممکنہ لیکن بہت اہم جگہ نہیں بنا سکا، جس کا وہ اہل ہے۔ ایک طرف سیاحتی شعبے کے سرکاری اداروں کی غفلت ہے تو دوسری طرف سیاحوں کے لیے آمد و رفت کی جدید، تیز اور محفوظ سہولیات کی دستیابی بھی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔
بیسل نامی گاؤں میں دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز
ایک دریا کے کنارے واقع بیسل نامی چھوٹا سا گاؤں وہ جگہ ہے، جہاں سے دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح ان ٹریلز پر چلنے کے لیے ہر سال بیسل کا رخ کرتے ہیں۔ اس گاؤں کو ہونے والی آمدنی میں سیاحوں کی آمد و رفت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وادی ناران سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے آخری پولیس چیک پوسٹ بھی بیسل ہی میں واقع ہے۔
عوامی اور نجی شعبوں میں اشتراک عمل کی ضرورت
پاکستانی پہاڑ سر کرنے والے آنے والے کوہ پیماؤں اور سیاحت کے لیے اس ملک کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اٹلی، اسپین، پولینڈ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا سے ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق سیاحتی شعبے کے لیے بہتر مالیاتی نتائج کی خاطر عوامی اور نجی شعبوں کے مابین مشترکہ سرمایہ کاری اور اشتراک عمل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔