پھیلتے شہر، چیلنج کیا اور علاج کیا؟
شہروں کی آبادی رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہے اور مسقتبل میں یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو گی۔ مگر کیا شہر اس کے لیے تیار ہیں؟
بڑھتے شہروں کے بڑھتے مسائل
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2050 تک دنیا کی آبادی میں کئی ارب کا اضافہ ہو جائے گا اور اس آبادی کا قریب دو تہائی شہروں میں مقیم ہو گا۔ اس لیے شہروں میں انفراسٹرکچر اور خدمات کے شعبوں میں ترقی لانا ہو گی، تاکہ رہائش، پانی، سوریج، روزگار، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کے معاملات درست رہیں۔
بڑھتی کچی بستیاں
کچھ شہروں کی آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے مضافاتی بستیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس تصویر میں جنوبی افریقہ کے علاقے کھیلیتشا کے قریب ایک کچی بستی دیکھی جا سکتی ہے۔ افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکا میں لاکھوں افراد ایسی ہی بستیوں میں آباد ہیں، جہاں پینے کے پانی اور نکاسیء آب کے انتظامات نہیں۔
سبز عمارات
اربنائزیشن کچھ اچھے امکانات بھی مہیا کرتی ہے۔ کم تنخواہوں والے افراد کے لیے لاس اینجلس کے قریب سینٹا مونیکا کا علاقہ ماحول دوستی کی ایک عمدہ مثال ہے، جہاں مرکز شہر کے قریب کم قیمت اپارٹمنٹس مل جاتے ہیں۔ کولاریڈو عدالت امریکا میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارات میں سے ایک تھی۔
صاف پانی
صاف پانی کی رسائی یقینی بنانے کے لیے مختلف شہر روایتی طور پر زیرزمین پانی یا دریاؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ مستقبل میں شہروں کے لیے پائیدار، قابل اعتبار اور مناسب طریقے سے تمام شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ مختلف بھارتی شہر صاف پانی کی رسائی کے مسائل سے دوچار ہیں۔
شہری زراعت
ترقی پزیر ممالک میں شہر بڑھنے سے قلیل وسائل پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے۔ غریبوں کے لیے صحت بخش غذا کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں شہری زراعت کے ایک پروجیکٹ کی مدد سے مختلف خاندان اپنے لیے خوراک کا حصول خود یقینی بنا رہے ہیں، جب کہ اضافی اجناس بیچ دی جاتی ہیں۔
سائیکل پر
شہروں میں ٹرانسپورٹ کو منظم نظام لوگوں کو کام یا اسکولوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے ٹریفک میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کوپن ہیگن میں اسی تناظر میں سائیکلوں کا حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور وہاں لوگ کاروں کی بجائے سائیکلیں چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
بگوٹا کی بسیں
سن 2000ء سے کولمبیا کا دارالحکومت بگوٹا ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش میں ہے اور اس سلسلے میں ٹرانسمیلینیو نامی بس نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ بھری ہوئی بسوں پر تنقید کے باوجود یہ بسیں روزانہ دو ملین افراد کی نقل و حمل میں کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ بگوٹا حکومت اب ان ڈیزل بسوں کی جگہ ہائبرڈ اور الیکٹرک بسیں چلانا چاہتی ہے۔
کوڑے کا حل
کوڑا کرکٹ سے نمٹنا بھی اہم شہری مسئلہ ہے۔ سویڈش شہر کچرے سے بجلی پیدا کر رہے ہیں، جب کہ اس کچرے کا صرف ایک فیڈ زمینوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ سان فرانسِسکو سن 2020ء تک کچرے کی پیداوار ختم کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ اب وہ کچرے کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے بجلی تیار کرنے پر میں استعمال کرے گا۔
فضائی آلودگی
شہر فضائی آلودگی کا اہم منبع ہیں اور کئی کا تو حال ہی برا ہے۔ میکسیکو سٹی ایسے ہی شہروں میں سے ایک ہے، جو ہر وقت دھند میں رہتا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر فضائی آلودگی کی حالت یہ تھی کہ حکام کو میکسیکو سٹی کی سڑکوں پر گاڑیوں پر پابندی عائد کرنا پڑی، جب کہ عوام سے کہا گیا کہ وہ گھروں ہی میں رہیں۔
دھواں کھانے والی دیواریں
میکسیکو ہی میں رواں سال کے آغاز پر ’ڈرائیو مت کیجیے‘ نامی ہدایات نافذ کرنے کے بعد شہر کے رہائشیوں کو گاڑیاں شہر سے باہر کھڑی کرنا پڑیں۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ شہر میں درخت لگانے کی مہم اور مختلف ہسپتالوں میں دھواں جذب کرنے والی ٹائلیں تک لگانے جیسی کاوشیں کی گئیں۔
رہنما شہر
شہر ضرر رساں گیسوں کے 70 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ کوپن ہیگن، وینکوور، سویڈش مالمو اور چند دیگر شہر ان گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ جنوبی جرمن شہر فرائی برگ نے بھی اس سلسلے میں اہم اقدامات کیے ہیں اور ماحول دوست توانائی کے شعبے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے۔
سبز شہر
سبز علاقے شہروں کے لیے لازم ہیں۔ یہ صرف نگاہ کو اچھے لگنے اور لوگوں کے لیے آرام گاہیں نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ حدت میں کمی کے موجب بھی ہیں۔ گنجان آباد ہونے کے باوجود سنگاپور نے اب تک شہر کا نصف حصہ درختوں کے لیے مختص رکھا ہے۔ اسی لیے یہ شہر ایشیا کے گرین سٹی انڈیکس میں سرفہرست ہے۔