1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پلاسٹک کوٹنگ عمارتوں کو ٹھنڈا اور گرم رکھ سکتی ہے

14 جولائی 2024

ایک نئی تحقیق کے مطابق پلاسٹک میٹیریل پولی پرو پائیلین کی دیواروں اور کھڑکیوں پر کوٹنگ سے عمارتوں کو گرم اور ٹھنڈا رکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح توانائی کی بچت کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑنا قدرے آسان ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4i49N
Österreich | Luftaufnahme von weißen Gebäudedächern am Flussufer in Rattenberg
تصویر: Wirestock/Pond5 Images/IMAGO

27 جون 2024 کو 'سیل رپورٹس فزیکل سائنس جرنل‘ میں پرنسٹن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کی ایک مشترکہ تحقیق شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ماحول اور عمارتوں کے درمیان حرارتی بہاؤ کو ایک خاص حد تک محدود رکھنے کے لیے کوٹنگ کی نئی تکنیک استعمال کی جا سکتی ہے۔

یہ نئی تحقیق عین اس وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں گرمی کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ پاکستان سمیت متعدد ترقی پزیر ممالک کو رواں موسم گرما میں توانائی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ 

پاکستان میں سورج آگ کیوں برسا رہا ہے؟

  پاکستان میں شدید گرمی کی مسلسل لہر، صرف کراچی میں پچاس سے زائد اموات

تحقیق کا پس منظر کیا ہے؟

 جیوتر موئے مانڈل (Jyotirmoy Mandal) پرنسٹن یونیورسٹی کے  سول اینڈ انوائرمینٹل انجینئرنگ کے شعبے میں پروفیسر ہیں۔ مانڈل اس تحقیق کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے عمارتوں کو رہائش کے قابل بنانا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

مانڈل کے مطابق عمارتیں ماحول سے سورج کی روشنی کو جذب کر کے گرم ہو تی ہیں، اسی طرح موسم سرما میں باہر کا درجۂ حرات  کم ہو یا منفی ہو تو عمارتیں بھی اسی حساب سے ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر کے موسموں میں شدت آئی ہے اور اب سردی میں عمارتوں کو گرم اور گرمی میں ٹھنڈا رکھنا ضروری ہو گیا ہے جس کی وجہ سے توانا ئی کے بحران جنم لے رہے ہیں۔

بھارت میں ایک چھت پر سفید رنگ کیا جا رہا ہے۔
بھارت  کی کئی ریاستوں میں زمانہ قدیم سے چھتوں پر سفیدی کر کے  کمروں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔تصویر: Mahila Housing Trust

پرنسٹن یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نےعام پلاسٹک میٹیریل پر تجربات کر کے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اس تحقیق کا تعلق عمارتوں اور ماحول کے درمیان مختلف ویو لینتھ کی حرارت کے بہاؤ سے ہے۔

نئی تحقیق کیا ہے؟

اس تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی کو عمارتوں میں اندر آنے سے روکنے کے لیے عموماﹰ کھڑکیوں پر بلاک استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھتوں اور دیواروں پر سفید رنگ کر کے بھی سورج کی روشنی کو منعکس کیا جاتا ہے جس سے حرارت کمروں میں ٹریپ نہیں ہوتی۔

رپورٹ کے مطابق عمارتوں اور ماحول کے درمیان حرارتی بہاؤ ایک محدود انفرا ریڈ سپیکٹرم میں ہوتا ہے جسے سائنسی اصطلاح میں "ایٹموسفیرک  ٹرانسمیشن ونڈو" یا نیرو بینڈ کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ماحول کے علاوہ عمارتیں زمین سے بھی حرارت جذب کرتی ہیں جس کا سپکٹرم براڈ  بینڈ ہوتا ہے۔

ان تفصیلات سے مانڈل کی ٹیم کو خیال آیا کہ عمارتوں کی دیواروں اور کھڑکیوں پر ایسے میٹیریل کی کوٹنگ کی جا سکتی ہے جو ایٹمو سفیرک ونڈو کی حد میں حرارت خارج یا جذب کرتے ہوں۔

وہ بتاتے ہیں کہ  کچھ عام پلاسٹک میٹیریل جیسے پولی وینائل فلورائڈ میں تبدیلیوں سے اسے کوٹنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوٹنگ  موسم گرما میں ماحول اور سردیوں میں زمین سے حرارتی انجذاب کو ایک خاص حد سے بڑھنے سے روک سکتی ہے۔

ایک عمارت کے باہر نصب ایئرکنڈیشنر کے بیرونی حصے۔
اہور سمیت پاکستان کے متعدد علاقے فی الوقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ تصویر: Saadeqa Khan/DW

عام پلاسٹک میٹیریل کا  کوٹنگ کے لیے استعمال

اس تحقیق کے شریک مصنف آسوتھ رامن (Aaswarth Raman) یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبۂ میٹیریل سائنس انجینئرنگ سے بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر  وابستہ ہیں۔ رامن کے مطابق ان کی ٹیم نے تجربات کے لیے مختلف میٹیریل استعمال کیے اور حیران کن طور پر پولی پرو پائیلین کی کوٹنگ بھی حرارت کو ایٹموسفیرک ونڈو  کی حد میں جذب یا خارج کرتی ہے۔

رامن کے مطابق ان کی ٹیم نے یہ پولی پرو پائیلین  گھریلو پلاسٹک کے سامان سے حاصل کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی خوش آئند امر ہے کہ اس طرح کے میٹیریل کو عمارتوں کو ٹھنڈا یا گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عام دستیاب ہیں۔ اس تکنیک سے توا نائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور پلاسٹک کا بڑھتا کچرا بھی مسلسل ری سائیکل ہوگا۔

تحقیق کے انسانی زندگی پر اثرات

جیوترموئے مانڈل کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق مکمل طور پر فعال ہے اور اس کے سب سے زیادہ فوائد  گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت  کی کئی ریاستوں جیسے جودھا پور میں زمانۂ قدیم سے چھتوں پر سفیدی کر کے  کمروں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے، یہ نئی تحقیق اس سے زیادہ کار آمد ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ماحول اور عمارتوں کے درمیان حرارتی بہاؤ میں بھی بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔

پاکستان میں شدید گرمی اور بجلی پر اضافی ٹیکس

پلوشہ گل لاہور کی رہا ئشی ہیں۔ وہ لاہور کے ایک مقامی سکول میں پڑھاتی ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ''لاہور سمیت پاکستان کے متعدد علاقے فی الوقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ جبکہ شدید سموگ کے باعث اس برس موسم سرما بھی معمول سے ہٹ کر سرد تھا۔ ایسے میں گھروں کو ٹھنڈا اور گرم رکھنے کا واحد ذریعہ بجلی اور گیس ہیں۔ لیکن حکومت نے  بڑھتی مہنگائی، عوام کی حالت زار اور موسمی شدت کا خیال کیے بغیر بجلی کے بل پر نئے ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔‘‘

ایک عمارت کے اندر لگے ایئرکنڈیشنر
پاکستان سمیت متعدد ترقی پزیر ممالک کو رواں موسم گرما میں توانائی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔   تصویر: Saadeqa Khan/DW

وہ کہتی ہیں کہ متوسط طبقے کے لیے اب ایئر کولر یا اے سی استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد  گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے روایتی طریقوں یا سولر پینل پر انحصار کر رہے ہیں۔

اسد قاضی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں محقق ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو نے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے مگر ملک میں ان ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی خاص تحقیق نہیں کی جا رہی۔

اسد کہتے ہیں کہ پرنسٹن یونیورسٹی کی نئی شائع ہونے والی تحقیق دراصل پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے لیے بہت کارآمد ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید گرم یا سرد موسم سے لوگوں کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ ان ممالک میں توانائی کے ذرائع  بھی محدود ہیں اور بجلی و گیس کی بڑھتی قیمتیں اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔

اسد کے مطابق پاکستانی تحقیقی اداروں یا یونیورسٹیوں کو اس تکنیک پر کام کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی کوٹنگ مقامی طور پر بھی تیار کی جا سکتی ہے جس سے عام آدمی کو  شدید موسمی حالات میں کچھ ریلیف ملے گا۔

جھلسا دینے والی گرمی سے کیسے بچا جائے؟