پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو کریک ڈاؤن کا خدشہ
7 فروری 2019پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان کو منگل کے روز اسلام آباد میں پولیس کے تشدد کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پاکستانی قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر نے خبر رساں دارے روئٹرز کو بتایا، ’’ابھی تک ہمارے 18 کارکن پولیس کی حراست میں ہیں۔‘‘ علی وزیر کے مطابق گرفتار کیے گئے کُل 19 ارکان میں سے صرف ایک کو اب تک رہا کیا گیا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کا آغاز گزشتہ برس کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کی مبینہ ماروائے عدالت ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ تاہم بعد میں یہ تحریک پاکستانی سکیورٹی اداروں کی طرف سے ملک کے قبائلی علاقوں، شمال مغربی صوبہ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں سے لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی اور سماجی حقوق کے لیے ایک توانا آواز بن کر سامنے آئی۔
اسلام آباد میں منگل پانچ فروری کا احتجاج بلوچستان میں پی ٹی ایم کے ایک علاقائی رہنما ارمان لونی کی ہلاکت کے تناظر میں منعقد کیا گیا تھا۔ یہ گروپ ارمان کی ہلاکت کا الزام پولیس پر عائد کرتا ہے۔
پی ٹی ایم کے بانی رکن اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ پولیس نے ارمان لونی کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پشتوں تحفظ موومنٹ کے گرفتار شدہ ارکان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حکام کو ’’پر امن پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے احتجاجی مظاہرین کو بغیر کسی شرط کے فی الفور رہا کر دینا چاہیے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا سے متعلق ریسرچر رابعہ محبوب کے مطابق، ’’یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستانی حکام نے اس حد تک سختی روا رکھی ہے، حالانکہ سینیئر حکومتی حکام نے بھی یہ بات واضح طور پر تسلیم کی ہے کہ پی ٹی ایم کی رنجشین درست ہیں اور ان کا تدارک ہونا چاہیے۔‘‘
پی ٹی ایم الزام عائد کرتی ہے کہ فوج اور ملک کے دیگر سکیورٹی ادارے ہزاروں افراد کی جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی ایسے پشتون لوگوں کی ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب پاکستانی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ا ب ا / ع ب (روئٹرز)