پشاور کی ‘دیوار مہربانی‘
اس دیوار کے سائے میں ضرورت مندوں کے لیے اشیاء چھوڑ دی جاتی ہے۔
پشاور کے علاقہ حیات آباد میں ایک دیوار کو ’دیوار مہربانی‘ یا ’وال آف کائنڈنس‘ کے نام سے حال ہی میں منسوب کیا گیا ہے۔ اس مقام پر ضرورت مندوں کے لیے اشیاء چھوڑ دی جاتی ہے۔
ایران میں بنی ’دیوار مہربانی‘ سے متاثر ہوکر پشاور کے نوجوان اسد علی لودھی اور کچھ طالب علموں نے اس دیوار کی بنیاد رکھی۔ جس کا مقصد غریب لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
دیوار مہربانی کے قیام کو کچھ ہی دن ہوئے ہیں لیکن پشاور کے عوام اس میں امدادی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کے پیش نظر مختلف چیزیں عطیہ کی جا رہی ہیں۔
اسد علی لودھی کہتے ہیں کہ چند ہی دنوں میں قریب دو ہزار تک لوگوں نے مختلف ملبوسات لاکر ثابت کردیا ہے کہ ان کا یہ مشن کامیاب ہے۔ پشاور کے علاوہ، خیبر ایجنسی، چارسدہ اور دوسرے علاقوں کے لوگوں نے بھی ضرورت کی اشیا عطیہ کی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایک نوجوان عظمت خان کا کہنا تھا، ’’اس مہم کی اچھی بات یہ ہے کہ ضرورت مند کسی بھی وقت ضرورت کی اشیا حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اگر ایک طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد ’دیوار مہربانی‘ کے قریب مختلف اشیاء رکھ رہے ہیں تو دوسری طرف زیادہ تر لوگ اس کو محض دیکھنے کے لیے بھی آرہے ہیں اور اسد علی کے اس اقدام کو سراہتے ہیں۔
گیارہ سالہ کلیم خان ایک ریڑھی میں پھل فروخت کرتا ہے۔ ’دیوار مہربانی‘ پر اپنے قامت کا سویئٹر حاصل کرکے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کا خیال تھا کہ اس سال بھی سردی کا موسم بغیر جرسی پہنے گزر جائے گا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’دیوار مہربانی‘ کو ان چند دنوں میں کبھی بھی خالی نہیں دیکھا۔ وہاں ہر وقت مخلتف اشیا مثلا، شلوار قمیص، کوٹ، پینٹ، ٹی شرٹس، چادریں اور دوسرے گرم ملبوسات موجود ہوتے ہیں۔
گو کہ پشاور کی ’دیوار مہربانی‘ کو قائم کیے ابھی تک بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا ہے لیکن اس دوران اسد علی اور اس کے ساتھیوں کی اس تحریک کو بہت پذیرائی ملی ہے۔ ہر روز درجنوں ضرورت مند افراد یہاں سے استعمال کی اشیاء لے کر جاتے ہیں۔
’دیوار مہربانی‘ سے لوگ کسی بھی وقت مستفید ہو سکتے ہیں۔ رات کے وقت اجالا کرنے کے لیے اس دیوار پر لائٹ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس بات کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رات کے وقت بھی غریب لوگ خاموشی کے ساتھ اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔
پشاور کے ’دیوار مہربانی‘ کو مقامی میڈیا کے علاوہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی بہت مقبولیت ملی۔ جہاں ملک بھر کے بے شمار لوگوں نے اس متاثرکن اقدام کو سراہا ہے وہی لوگوں نے ملک بھر میں اس قسم کی مہمیں شروع کرنے کا بھی عندیہ کیا۔
اسد علی لودھی کہتے ہیں کہ ان کو اس وقت خوشی ہوگی جب اس قسم کے دیوار ملک کے دوسرے شہروں میں بھی بنائی جائیں گی۔ ان کے بہت سے دوستوں نے مخلتف شہروں سے ان سے رابطہ کرکے ایسا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ یہ مثبت تبدیلی ہوگی۔