پاکستان کے حسین نظارے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم سیاحت منایا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس پکچر گیلری میں ایک نظر پاکستان کے حسین مقامات پر۔
خوش گوار موسم اور فطری حسن
پاکستان کے شمالی علاقے فطری حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے کافی اونچائی کی وجہ سے ان علاقوں میں گرمیوں کے دوران موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
جھیل سیف الملوک اور پریوں کی داستانیں
وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع جھیل سیف الملوک کسی عجوبے سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ سطح سمندر سے تقریباﹰ 3240 میٹر کی بلندی پر واقع یہ جھیل پریوں کی داستانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
بڈاگئی اتڑور پاس
یہ بڈاگئی اتڑور پاس ہے جو سطح سمندر سے 11500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پاس کالام اور کمراٹ ویلی کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس کو بڈاگئی میڈوز بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے سرسبز وشاداب پہاڑ آپ کو قدرت کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ سردیوں میں برف کی وجہ سے یہ پاس بند ہو جاتا ہے اور صرف جون سے ستمبر تک یہ قابل استعمال ہے۔
مہوڈنڈ جھیل
مہوڈنڈ جھیل کالام سے 40 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے۔ مہوڈنڈ جھیل تک کا سفر مکمل جیپ ٹریک ہے۔ اس جھیل کو ٹراؤٹ مچھلیوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے لوگ
کہا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ یہ جہاں کہیں آپ کو راستے میں ملیں گے آپ کو کھانے اور چائے کی دعوت ضرور دیں گے۔ اگر آپ وہاں کی مقامی ثقافت کا خیال رکھیں گے تو یہ لوگ آپ کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کریں گے۔
دیو مالائی حسن کی حامل وادئ ناران
پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع ناران کی وادی دنیا بھر سے فطرت کے دلدادہ افراد کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ سیاح جب تیز و تند دریا اور آبشاروں سے گزرتے ہوئے ناران پہنچتے ہیں تو قدرتی مناظر کی خوبصورتی روح تک اتر جاتی ہے۔
بابو سر ٹاپ
درہ بابو سر یا بابو سر ٹاپ کاغان سے 150 کلومیٹر شمال میں ایک پہاڑی درہ ہے جو چیلاس کو شاہرہ قراقرم سے جوڑتا ہے۔ بابو سر ٹاپ تک خوبصورت آبشاریں، چشمے اور دریائے کنہار یہاں آنے والوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
مصر کیوں، موہنجو دڑو کیوں نہیں؟
جرمن ماہر آثار قدیمہ پروفیسر مائیکل یانزن چالیس سال سے زائد عرصے سے موہنجودڑو کے کھنڈرات پر تحقیق اور ان کے بچاﺅ میں لگے ہوئے ہیں۔ یانزن کا کہنا ہے کہ ساری دنیا مصر کے آثار قدیمہ کو تو جانتی ہے لیکن موہنجودڑو کو نہیں جانتی۔ اس صورتحال کو اب تبدیل ہونا چاہیے۔
چلم جوشٹ میلہ
کیلاش میں چلم جوشٹ میلے کے آخری روز قبیلے کے مرد اور خواتین ایک ساتھ رقص کرتے ہیں۔ موسیقی اور ناچنا ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش قبیلے کے صرف سات ہزار افراد باقی رہ گئے ہیں۔ یہ کلچر، مقامی لوگ اور ان کی رسومات آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
روہتاس قلعہ، عالمی ثقافتی ورثے کی زبوں حالی
پاکستانی ضلع جہلم میں دینہ کے قریب تاریخی روہتاس قلعہ دہلی کے افغان حکمران شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ آج اس قلعے کی باقیات عالمی ثقافتی میراث کا حصہ ہیں۔
کھیوڑہ اور کوہستانِ نمک، ایک ارضیاتی عجوبہ
سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ تحصیل پنڈ دادن خان کے شمال میں کھیوڑہ سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے کالا باغ کے مقام تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں کھیوڑہ کے مقام پر خوردنی نمک کی وہ کان بھی ہے، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی کان ہے۔