نائجيريا: تشدد کے خلاف متفقہ کوششوں کی ضرورت
30 دسمبر 2011ڈوئچے ويلے کی تبصرہ نگار اوٹے شيفر اس بارے ميں اپنے تبصرے ميں لکھتی ہيں:
صحيح تعداد کے بارے ميں تو معلومات دستياب نہيں، ليکن سن 2010 سے لے کر اب تک بوکو حرام نامی مسلم تنظيم کی دہشت گردی کے ہاتھوں سينکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ نائجيريا کے مسيحيوں کی انجمن کا کہنا ہے کہ يہ اُس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور بوکو حرام کے اس اعلان جنگ پر مسيحی برادری کو مناسب جواب دينا ہو گا۔
مسيحی برادری کا يہ ردعمل بھی خطرناک اور بے مقصد ہو گا کيونکہ مسيحی آخر کس کے خلاف اپنا دفاع کريں گے؟ سارے مسلمانوں کے خلاف؟ اور مسيحی برادری بوکو حرام گوريلا کمانڈوز سے کارگر جنگ کس طرح کرے گی؟ سب سے بڑھ کر يہ کہ مسلمانوں اور مسيحيوں کے درميان نہ حل ہو سکنے والے تنازعے کے شکار نائجيريا ميں ان دونوں مذہبی برادريوں کی باہمی جنگ کا آخر کيا نتيجہ نکلے گا؟ کوئی بھی سنجيدگی سے حالات مزيد بگاڑنا نہيں چاہتا کيونکہ 150 ملين کی آبادی والے اس ملک ميں اس کا نتيجہ حقيقتاً خانہ جنگی کی صورت ميں نکل سکتا ہے اور يہ ملک مذہبی بنيادوں پر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
سوال يہ ہے کہ نائجيريا کی حکومت ملک ميں بسنے والے مسيحيوں کی جان، مال اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی اہل کيوں نہيں ہے؟ اب تک کسی آگ لگانے اور بم پھينکنے والے دہشت گرد کو گرفتار نہيں کيا گيا ہے، حالانکہ زيادہ گڑبڑ والے علاقوں ميں پوليس اور فوج پہرے پر دکھائی ديتے ہيں اور پوليس اور فوج کے مکمل طور پر اسلحہ سے ليس خصوصی کمانڈو دستے مسلسل گشت پر رہتے ہيں؟ مشين گنوں سے مسلح اسکوٹروں پر سوار دہشت گرد ٹولے اپنے حملے آخر چھپ کر اور خاموشی سے تو نہيں کرتے۔
بوکو حرام کے دہشت گرد کہيں روپوش نہيں ہيں۔ جو سننا چاہتا ہے، اُسے معلوم ہے کہ اُن کے اگلے ہدف کون سے ہوں گے۔ يہ بہت يقين سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر سال کرسمس کے موقع پر چرچ بھی بوکو حرام کے حملوں کا ہدف ہوں گے۔ ليکن قانون کے بجائے نائجيريا ميں من مانی کی جا رہی ہے اور تحفظ فراہم کرنے کے بجائے سزا سے گريز کيا جا رہا ہے۔ سن 2011 ميں منتخب کيے جانے والے نائجيريا کے نئے صدر گُڈ لک جوناتھن کو جلد ہی اس کا حل نکالنا ہو گا ورنہ يہ دہشت گردی جلد ہی خود اُن کے اقتدار کے ليے بھی خطرہ بن جائے گی۔
شمال کی وفاقی رياستوں ميں تصادم اور تشدد کے پيچھے مذہب اور نظريات کی جنگ سے بھی زيادہ مسائل چھپے ہوئے ہيں۔ يہ اثر و رسوخ، پيسے اور طاقت کی جنگ ہے۔ شمال ميں بھی ايسی وفاقی رياستيں ہيں، جہاں مسلمان اور مسيحی پر امن طور پر رہتے ہيں، جہاں باہمی افہام و تفہيم اور توازن کی پاليسی کی وجہ سے آپس کے تعلقات اچھے ہيں۔ ايک مسلمان مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ تنازعات مسلمانوں اور مسيحيوں کے درميان نہيں، بلکہ اچھے اور برے انسانوں کے درميان ہيں۔
معلوم ہوتا ہے کہ ايسے بہت سے لوگ ہيں جو امن کے بجائے تنازعے کے پھيلاؤ اور تشدد ميں اپنے ليے زيادہ فائدے ديکھتے ہيں۔ بوکو حرام کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ اُس کے دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے ساتھ بھی روابط ہيں۔ اس ليے بوکو حرام کی سياسی اور سماجی بنياد کو ناکارہ بنانا ضروری ہے۔ شمال کے نوجوانوں کو تعليم و تربيت اور روزگار کے اچھے مواقع فراہم کيے جانا چاہئيں۔
تبصرہ: اُوٹے شيفر، ڈوئچے ويلے
ترجمہ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک